Pages

From Bhagat to a Terrorist- RSS Terrorism against Indian Muslims

بھگت سے دہشت گرد بننے تک

آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے اہم رہنما،سوامی آسیمانند کی چشم کشا داستان،اسی پوشیدہ سازشی کی زیرنگرانی بیسیوں پاکستانی و بھارتی اسلامیوں کو خون میں نہلا دینے والا خطرناک منصوبہ پروان چڑھا
رات کے ساڑھے گیارہ بجے تھے کہ سمجھوتہ ایکسپریس پانی پت اسٹیشن سے روانہ ہوئی۔ دہلی سے لاہور جانے والی اس ریل پر تقریباً 750مسافر سوار تھے۔اکثریت کا تعلق پاکستان سے تھا۔19فروری 2007ء کا دن صرف آدھا گھنٹہ دور تھا‘ مگر کئی بدقسمت لوگوں کو خبر نہ تھی کہ اس سے قبل ہی موت دبے پائوں ان کی سمت بڑھ رہی ہے۔ جب بارہ بجنے سے سات منٹ قبل ریل دیوانہ نامی بھارتی گائوں سے نکلی، تو پچھلے دو ڈبوں میں زبردست دھماکے ہوئے ۔انھوں نے پوری گاڑی کو ہلا کر رکھ دیا۔ ڈبوں میں چھپائے گئے کیمیائی مادوں نے فوراً آگ پکڑ لی اور وہاں کہرام مچ گیا۔ آگ نے دیکھتے ہی دیکھتے 68 بچے ،عورتیں اور مرد خاکستر کر ڈالے۔پچاس سے زائد انسان زخمی ہوئے۔ اگلے دن بھارت و پاکستان کے اخبارات دہشت گردی کے اس گھنائونے واقعے کی تفصیل سے بھرے پڑے تھے۔ٹی وی نیٹ ورک جلے ڈبوں کے روح فرسا مناظر دکھا رہے تھے۔انتہا پسند ہندو رہنما پرگیاسنگھ نے چھوٹی بارہ سالہ بہن اور معتمدخاص، نیرا سنگھ کے ساتھ بیٹھ کر یہ منظر دیکھے۔ سوختہ لاشیں اور دھاڑیں مار کے روتی خواتین دیکھ کر پرگیا کی بہن کا دل بھر آیا اور آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے ۔بڑی بہن نے اسے جذباتی دیکھا، تو سرد لہجے میں بولی ’’آنسو بہانے کی کوئی ضرورت نہیں،مرنے والے مسلمان تھے۔‘‘ نیرا سنگھ نے بتایا کہ کچھ ہندو بھی مرے ہیں ۔ یہ سن کر پرگیا نے بے پروائی سے کہا ’’گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔‘‘موصوفہ نے پھر اس المیہ پر اظہار ِ مسرت کرتے ہوئے بہن اور اپنی سیکرٹری کو آئس کریم کھلوائی۔ آر ایس ایس کاچھپا رستم پچھلے سات برس کے دوران بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی تفتیش سے آشکارا ہو چکا کہ سمجھوتہ ایکسپریس کے بم دھماکے انتہا پسند ہندوئوں نے کیے۔مذہبی طور پر یہ شدت پسند ہندو بھارت سے مسلمانوں اور اسلام سے جڑی ہر شے ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہاں ’’ہندتوا‘‘ (ہندو راج)قائم ہو سکے۔ انہی انتہا پسندوں کا ایک لیڈر سوامی آسیمانند ہے،ہندوئوں کی کٹر مذہبی جماعت ’’آر ایس ایس‘‘ (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کا اہم رہنما۔ درحقیقت سوامی آسیمانند آر ایس ایس کا چھپا رستم ہے… ایسا رہنما جس نے پس پردہ رہتے ہوئے اپنی مسلسل محنت و کوششوں سے نظریہ ہندتوا کو بھارت میں مقبول بنایا۔ اس کی داستان حیات یہ امر اجاگر کرتی ہے کہ شدت پسند ہندو جماعتیں کس قسم کی چالوں اور طریقوں سے جاہل ہندو عوام کو انتہا پسندی کے پھندے میں پھانس رہی ہیں۔ اس شدت پسند رہنما کی جگ بیتی دو امر نمایاں کرتی ہے: اول یہ کہ مذہب کا جوہرنیکی،محبت اور انسان دوستی ہے۔لیکن جب مذہب انتہاپسندوں کے ہتھے چڑھ جائے ،تو اس کے بطن سے عموماً نفرت،دشمنی اور قتل و غارت جنم لیتے ہیں۔دوم یہ سچائی کہ عالمی میڈیا یہ چرچا تو کرتا ہے کہ اسلام شدت پسندوں کے نرغہ میں ہے۔مگر بھارت میں ہندو انتہا پسند جماعتیں اقلیتوں کے خلاف جو ظلم و ستم کرنے میں مصروف ہیں،اس کی خبریں عالمی میڈیا میں بہت کم پڑھنے و سننے کو ملتی ہیں۔آسیما نند کی داستان اسی ڈھکے چھپے پہلو کے کئی گوشے وا کرتی ہے۔ آسیمانند کو معمولی لیڈر مت سمجھیے،اس نے ہزارہا بھارتی قبائلیوں کو ہندو بنایا۔آر ایس ایس میں اسے بڑا بلند مقام حاصل ہے۔تاہم اس کا شمار ان انتہا پسند رہنمائوں میں ہوتا ہے جو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے قتل و غارت کا استعمال جائز سمجھتے ہیں۔یہ سوامی اس لیے بھی غیر معمولی ہے کہ اس کا ذہنی رویہ تکمیل دینے میں ہندو مت کے دو مختلف دھاروں …متشددانہ سیاسی نظریے ،ہندتوااور راما کرشنا مشن کے انسانیت دوست فلسفے نے بنیادی کردار ادا کیا۔ ہندوئوں،بیدارہوجائو آسیمانند کا اصل نام نابھ کمار سرکار ہے۔ 1951ء میں مغربی بنگال کے گائوں، کام روپ کور میں پیدا ہوا۔ اسی گائوں میں انیسویں صدی کے مشہور ہندو گرو،شنکراچاریہ (1836ء۔ 1886ء ) نے جنم لیا تھا۔یہ گرو تمام مذاہب میں افہام وتفہیم کا قائل تھا۔ اس کا سنسکرت قول ہے! ’’تیومت ،تتو مت‘‘(خدا تک پہنچنے کے کئی (مذہبی) راستے ہیں۔) اسی کے ایک چیلے، سوامی ویوکانند(Swami Vivekananda) نے 1897ء میں ’’راما کرشنا مشن‘‘ کی بنیاد ڈالی۔اس روحانی سلسلے سے وابستہ ہندو بظاہر انسانوں کی بے غرض خدمت کرنے والے فلسفے (کرم یوگ) پر یقین رکھتے ہیں۔ راما کرشنا مشن نے گائوں میں اپنا ایک مرکز بنا رکھا تھا۔سو آسیمانند وہاں سوامیوں کی باتیں اور مذہبی گیت سنتے پلا بڑھا۔اس کا باپ ،بھبھوت بھوشن سرکار معمولی کسان تھا جس نے ہندوستانی تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔وہ گاندھی جی کا نہ صرف پرستار تھا بلکہ انہیں دیوتا سمجھتا۔ بھبھوت سرکارکی تمنا تھی کہ اس کا بیٹا راما کرشنا مشن کا بھگت بن جائے۔بنگال میں ان بھگتوں کو عزت و احترام سے دیکھا جاتا ۔مگر آسیما نند اور اس کے بھائی آر ایس ایس میں دلچسپی لینے لگے جو اپنے قائد،مہادیو گوالکر کی قیادت میں پھل پھول رہی تھی۔ باپ آر ایس ایس والوں کو گاندھی جی کا قاتل سمجھتا تھا۔اسی لیے اس نے بیٹوں کو خبردار کیا کہ وہ انتہا پسندوں سے میل ملاپ نہ رکھیں۔تاہم آسیمانند سمیت سبھی بھائیوں کو آر ایس ایس کی رضاکارانہ سرگرمیوں میں دلچسپی محسوس ہوئی۔سو انہوں نے جماعت کے مذہبی سکول میں داخلہ لے لیا۔ تاہم آسیمانند زیادہ عرصہ مذہبی سکول میں نہیں ٹکا اور روایتی سکولوں میں تعلیم پانے لگا۔اس نے بعدازاں بردوان یونیورسٹی( University of Burdwan ) سے ایم اے بھی کیا۔تب راما کرشنا مشن کی تعلیمات کے زیر اثر وہ تمام مذاہب کو ایک مالا کے موتی سمجھتاتھا۔لیکن 1971ء میں وہ مذہبی انتہا پسندی کی طرف مائل ہو گیا۔ ہوا یہ کہ اس کی ملاقات آر ایس ایس کے ایک کارکن، بیجوئے ادیہ سے ہوئی۔(ادیہ اب بنگالی زبان میں آر ایس ایس کے نکلنے والے اخبار ’’سواستیکا‘‘ کا ایڈیٹر ہے۔)اس نے نوجوان کو بتایا کہ سوامی ویوکانند دراصل ہندتوا پر یقین رکھتا تھا۔بطور ثبوت اس نے ایکناتھ راندے کی مرتب کردہ کتاب ’’ہندو قوم سے پرجوش التجا‘‘( A Rousing Call to the Hindu Nation,)آسیمانند کودکھائی۔ ایکناتھ آر ایس ایس کا مشہور لیڈر تھا جس نے اپنی کتاب میں سوامی ویوکانند کی تقاریر اور تحریروں کو جمع کر دیا۔ درج بالا کتاب میں جگہ جگہ ہندوئوں پر زور دیا گیا ؛’’بیدار ہو،جاگ جائو تاکہ اپنے مقصد کو پاسکو۔‘‘اور یہ مقصد کیا ہے؟ …بھارت میں ہندو راج کا قیام!یہی نہیں،کتاب میں ویوکانند ایک انتہاپسند گرو کی صورت سامنے آتا ہے۔ایک تقریر میں اس نے حاضرین کو بتایا:’’جب مسلمان ہندوستان آئے ،تو یہاں ساٹھ کروڑ ہندو بستے تھے،اب بیس کروڑ رہ گئے ہیں۔بقیہ کو تلوار کے زور پہ مسلمان یا عیسائی بنا لیا گیا۔میں سمجھتا ہوں،جو ہندو اپنے دھرم کا چولا اتار ڈالے ،وہ محض انسان ہی نہیں رہتا،بلکہ ہمارا دشمن بن جاتا ہے۔‘‘ اس کتاب نے قدرتاً نوجوان آسیمانند کو جھنجوڑ ڈالا۔وہ تو یہی سمجھتا تھا کہ راما کرشنا مشن والے ہر مذہب کا احترام کرتے ہیں۔وہ کرسمس کا استقبال کرتے اور عیدین کے موقع پر بھی خوشیاں مناتے۔مگر نوجوان پہ انکشاف ہوا کہ مشن والوں نے ہندو قوم پرستی کے بانیوں میں شامل،سوامی ویاکانند کو اس لیے بطور سیکولر رہنما پیش کیا تاکہ کانگریسی حکومت سے فنڈز لے سکے۔یہ راز کھلنے کے بعد آسیمانند نہ صرف مشن والوں سے متنفر ہوا،بلکہ نظریہ ہندتوا کا پرُجوش مبلغ بن گیا۔ کچھ عرصے بعد اس نے بہ حیثیت رکن آر ایس ایس میں شمولیت اختیار کر لی۔تاہم راما کرشنا مشن سے وابستگی کے دوران اس نے سماجی خدمت کے جو طور طریقے سیکھے تھے،وہ انھیں خیرباد نہ کہہ سکا۔یوں اس کی ذات میں دو متناقص شخصیتیں جمع ہو گئیں…وہ انتہا پسند ہندو ہونے کے باوجود بھگتی(درویشی)کی طرف بھی مائل رہا۔ قبائلیوں میں ہندومت کا پرچارک جلد ہی مغربی بنگال میں آرایس ایس کے سرکردہ رہنما،بسنت رائو بھٹ نے نوجوان کارکن کو سایہ عاطفت میں لے لیا۔بظاہر مہذب و شائستہ نظر آنے والا یہ رہنما کٹرہندو تھا۔اس کی سب سے بڑی آرزو یہی تھی کہ بھارت میں ہندو راج قائم ہو جائے۔ 1976ء میں بسنت رائو نے بنگال اور شمال مشرقی بھارت کی قبائلی ریاستوں(جھاڑ کھنڈ،چھتیس گڑھ،آسام) میں ہندومت پھیلانے کی خاطر ایک تنظیم’’ویداربہا ونواسی کلیان آشرم‘‘("Vidarbha Vanavasi Kalyan Ashram)کی بنیاد رکھی۔آسیمانند کو اسی تنظیم میں اہم عہدہ سونپا گیا۔یوں وہ قبائلیوں کو ہندو بنانے کے لیے اپنی صلاحیتیں صرف کرنے لگا۔وہ دن رات ان کے ساتھ گذارتا اور محنت سے اپنے مذہب کا پرچار کرتا۔تجربے اور مشق نے جلد اسے ماہر پرچاری(مبلغ)بنا دیا۔ اس وقت قبائلی ریاستوں میں عیسائیت تیزی سے پھیل رہی تھی۔سو آر ایس ایس کے پرچاریوں کا عیسائی مشنریوں سے تصادم ہو گیا۔جماعت پروپیگنڈا کرنے لگی کہ عیسائی مشنری ہندتوا کے دشمن ہیں۔نیز انہی کی وجہ سے ریاستوں میں علیحدگی پسند تحریکیں چلنا شروع ہوئیں۔قبائل میں مشنریوں کا زور توڑنے کے لیے ہندو پرچاریوں نے انہی کے پرچاری طریقے اپنائے…اسکول اور اسپتال کھولے،نوجوانوں کو سستے داموں ہوسٹل کی خدمات فراہم کیں اور دیگر سماجی منصوبوں کا آغاز کیا۔مدعا یہی تھا کہ زیادہ سے زیادہ قبائلیوں کو ہندو بنایا جائے۔ اگلے دس برس تک آسیمانند قبائلی ریاستوں میں پرچار کرتا رہا۔اسی دوران وہ سنیاسی بھی بن گیا تاکہ گھریلو ذمے داریاں چھوڑ کر خود کو مکمل طور پہ اپنے مذہب کی ترویج کے لیے وقف کر سکے۔اسی کی کوششوں سے چھتیس گڑھ اور جھاڑکھنڈ میں آرایس ایس مضبوط جماعت بن کر ابھری اور ہزارہا قبائلی ہندو ہو ئے۔ جزائر انڈیمان میں آسیمانند کو آرایس ایس کی قیادت نے سراہا اور اسے اگلی مہم سونپ دی۔1988ء میں اسے جزائر انڈیمان بجھوا دیا گیا۔وہاں بھی مشنریوں کا بہت زور تھا۔ہر سال سیکڑوں قبائلی عیسائی بن رہے تھے۔اب آر ایس ایس ان بھارتی جزائر پہ نظریہ ہندتوا کا بول بالا دیکھنا چاہتی تھی۔ انڈیمان پہنچتے ہی آسیمانند تن من دھن سے پرچاری سرگرمیوں میں محو ہو گیا۔اس نے بڑی بستیوں میں مندر اور آشرم تعمیر کرائے۔قبائلیوں کو تعلیم و صحت کی مفت سہولیات دیں اور پھر ان میں اپنے مذہبی اصول پھیلائے۔اس کی شبانہ روز سعی سے جزائر میں ہندتوا نظریہ پھیلے لگا۔حتی کہ 1999ء سے وہاں ’’سنگھ پریوار‘‘(آر ایس ایس کے نظریہ ہندتوا سے متفق ہم خیال انتہا پسند ہندو جماعتوں )کے سیاسی روپ،بی جے پی کے امیدوار ہی الیکشن جیتتے چلے آ رہے ہیں۔ گجرات میں آمد ہزاروں غیرمذہبوں کو ہندو بنانے کے باعث 1996ء تک آسیمانند نے اپنی جماعت میں اہم مقام حاصل کر لیا۔حتی کہ اسی سال آر ایس ایس نے قبائلی علاقوں میں منظم پرچارک کی خاطر ایک خصوصی تنظیم’’شردھا جگران وبھاگ‘‘(مذہب جگائو دستہ)کی بنیاد رکھ دی اور آسیمانند ہی کو اس کا صدر بنایا۔ اسی سال وہ اپنی اگلی مہم پہ ریاست گجرات کے ضلع ڈنگ(Dang district)پہنچ گیا۔یہ گجرات ہی نہیں بھارت کا سب سے پسماندہ علاقہ کہلاتا ہے۔وہاں دو لاکھ باشندے آباد ہیں۔تب ان میں 98 فیصد قبائلی بستے تھے۔ان میں بھی مشنری تیزی سے اپنا مذہب پھیلا رہے تھے۔سو ان کے توڑ کا منصوبہ آسیمانند کے سپرد ہوا جو اب منجھا ہوا پرچاری بن چکا تھا۔ سوامی نے تیس چالیس بھگت ساتھ لیے اور ان کے ہمراہ قبائلیوں(اڈواسیوں)کی بستیوں میں جانے لگا۔وہاں وہ بڑوں میں عام ضرورت کی اشیا اور بچوں کے مابین چاکلیٹیں تقسیم کر کے انھیں ہندومت کی طرف راغب کرنے کی کوششیں کرتے،بھجن سناتے اور زور دیتے کہ وہ غیر مذہبوں (مشنریوں)کے جال میں نہ پھنسیں۔ہر بستی میں ایسے نوجوانوں کا انتخاب ہوتا جنھیں آر ایس ایس کا تنخواہ دار کارکن بنا لیا جاتا۔آسیمانند ایک بستی اسی وقت چھوڑتا جب وہاں کئی گھروں پہ گیروے (زرد) جھنڈے لہرانے لگتے۔ خوف و دہشت بطور ہتھیار تبلیغ و تحریض کے ساتھ ساتھ ضلع ڈنگ میں آر ایس ایس کا کُلہ گاڑنے کے لیے آسیما نند نے خوف و دہشت کو بھی بطور ہتھیار استعمال کیا۔وہ قبائلیوں کو بتاتا کہ اگر علاقے میں عیسائیوں کی کثرت ہو گئی ،تو وہ ان کے گھربار پہ قبضہ کر لیں گے۔اس سلسلے میں وہ مغربی بنگال کے سرحدی اضلاع کی مثال دیتا جہاں بقول اس کے، بنگلہ دیشی و برمی مسلمانوں نے ہندوئوں کو کاروبار ِحیات سے بے دخل کر دیا تھا۔ رفتہ رفتہ سوامی عیسائیت کے خلاف شرانگیز پروپیگنڈا کرنے لگا۔جون 1998ء میں آسیمانند نے ایک جلسے کا اہتمام کیا۔جلسے کے تشہیری پوسٹر کی عبارت کچھ یوں بنائی گئی: ’’ہندوئو!چوروں سے ہوشیار رہو‘‘ ’’آج ضلع ڈنگ کا سب سے بڑا مسئلہ عیسائی مشنریوں کے ادارے ہیں…سماجی سرگرمیوں کے بہانے یہ ادارے اڈواسیوں کا استحصال کر رہے ہیں…جھوٹ اور دھوکا ان کا مذہب ہے۔‘‘ جلد ہی پروپیگنڈے نے دہشت گردی کا روپ دھار لیا۔25 دسمبر 1998ء کو سنگھ پریوارکی جماعتوں،آرایس ایس ،وشوا ہندو پریشد،بجرنگ دل،ہندو جگرن منچ وغیرہ کے سیکڑوں کارکنوں نے عیسائی مشنریوں کے دیپ درشن ہائی سکول، اہوا پہ دھاوا بول دیا۔انہوں نے اس اقامتی سکول کو ملبے کا ڈھیر بنا ڈالا۔ ریاستی صدر مقام،اہوا سے تیس کلو میٹر دور واقع مشنریوں کے ایک اور اقامتی سکول کو آگ لگا دی گئی۔گدہوی گائوں میں دہشت گردوں نے علاقے میں قائم دو چرچ جلا ڈالے۔اگلے دن فساد وسیع علاقے پر پھیل گیا۔عیسائیوں کے علاوہ مسلمانوں کے گھر بھی خشت باری کا نشانہ بنے اور ان کی دکانیں لوٹ لی گئیں۔ آسیمانند فخر سے بتاتا ہے:’’25دسمبر سے 10جنوری 1998ء تک ڈنگ میں ہمارا ڈنکا بجتا رہا۔اس دوران چالیس ہزار عیسائی ہندو بنائے گئے۔ ہم نے تیس چرچ گرائے اور ان کی جگہ مندر کھڑے کر دیے۔‘‘ فسادکا آغاز یوں ہوا کہ بہ موقع کرسمس، 25 دسمبر کی صبح سوامی آسیمانند کے زیر انتظام اہوا اور دیگر بڑے قصبوں میں سنگھ پریوار نے احتجاجی جلسے منعقد کیے۔اہوا کے جلسے میں ترشول اور لاٹھیاں لیے 3500 ہندوشریک تھے۔ جلسوں میں انتہا پسند لیڈروں نے عیسائیوں کے خلاف اشتعال انگیز تقریریں کیں۔مقامی پادریوں نے ڈپٹی کمشنر،بھارت جوشی کو درخواست دے رکھی تھی کہ وہ سنگھ پریوارکی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا نوٹس لے۔مگروہ انہی سے ملا ہوا تھا…چناں چہ بھارت جوشی مہمان خصوصی کی حیثیت سے جلسے میں شریک ہوا۔ جلسوں میںاشتعال انگیز تقریریں سن کر ہی ہندو عوام اتنے مشتعل ہوئے کہ انہوں نے عیسائیوں و مسلمانوں کی جان و مال پر حملہ کر دیا۔بعدازاں کئی عیسائی اورمسلمان اپنی زندگیاں بچانے کے لیے ضلع سے نقل مکانی کر گئے۔یوں سنگھ پریوار دہشت گردی کی مدد سے ضلع کو اپنا قلعہ بنانے میں کامیاب رہا۔اس کامیابی میں اہم ترین کردار سوامی آسیما نند کا ہی تھا۔ عام ہندوئوں کو بس کٹربنا دو جب وہ ضلع ڈنگ پہنچا،تو وہاں عیسائیت تیزی سے پھیل رہی تھی۔نیز سنگھ پریوار کے کارکن بہت تھوڑی تعداد میں تھے۔مگر سوامی نے دن رات قبائلیوں میں پرچارک کر کے نظریہ ہند توا کو مقبول بنایا۔ہزاروں کارکن سنگھ پریوارمیں شامل کیے اور اسے ضلع کی سب سے بڑی مذہبی و سیاسی جماعت بنا دیا۔عام ہندو تسلیم کرتے ہیں، سوامی آسیمانند مقناطیسی شخصیت کا مالک اور سحر انگیز مقرر ہے۔اس کے الفاظ ہندو میں خوابیدہ نظریہ ہندتواجگا ڈالتے ہیں۔‘‘آسیمانند اپنا فلسفہ کار کچھ یوں بیان کرتا ہے: ’’عیسائی اور مسلم مبلغوں کو روکنا آسان ہے……ہمیں بس یہ کرنا ہوتا ہے کہ عام ہندوئوں کو کٹر(انتہا پسند)بنا دو۔پھر ہندو عوام خود ہی عیسائیوں اور مسلمانوں کا کیا کرم کر ڈالتے ہیں۔‘‘ ضلع ڈنگ میں ہندومت کو مقبول بنانے کی خاطر آسیمانند نے ’’گھرواپسی منصوبہ‘‘شروع کیا۔ جب پچاس ساٹھ قبائلی ہندو ہونے کے لیے تیار ہوتے،آسیمانند انہیں ٹرک پر سوار کرا سورت میں واقع یونائی ماتا مندر لے جاتا۔وہاں قبائلی مقدس گرم چشمے میں نہاتے،تلک پوجا کی رسم سے گزرتے اور یوں ہندو بن جاتے۔ٹرک پر باآواز بلند بجھن لگائے جاتے اور یوں یہ سارا منصوبہ دیدنی بن جاتا۔راستے میں نئے ہندوئوں کا قافلہ آسیمانند کی جائے رہائش ٹھہرتا۔وہاںان کی دعوت ہوتی اور سوامی ہر نئے ہندو کو ہنومان لاکٹ بطور تحفہ دیتا۔ حیرت انگیز بات یہ کہ قبائلیوں سے سوامی کی دلچسپی بس اس حد تک تھی کہ وہ کسی طور عیسائی خدا کی عبادت نہ کریں۔آسیما نند نے جنوری 1999ء میں مشہور بھارتی رسالے،دی ویک کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا:’’ہمیں (ضلع ڈنگ)میں غربت مکائو منصوبوں یا ترقیاتی پروگراموں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ہم صرف روحانی طور پر قبائلیوں کا مقام بلند کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ نریندر مودی کی حمایت مل گئی تاہم ریاست گجرات میں آر ایس ایس سیاسی سطح پر بھی بسرعت ابھر رہی تھی۔جب ضلع ڈنگ میں عیسائیوں کے خلاف فساد ہوا،تو کانگریسی رہنما،سونیا گاندھی ان سے اظہار یکجہتی کرنے تشریف لائیں ۔سونیا گاندھی کے دورے نے آر ایس ایس میں آسیمانند کی اہمیت مزید بڑھا دی۔تنظیم کے قومی رہنما سوامی کی محنت و خدمات سے بہت خوش تھے۔چناں چہ کچھ عرصے بعد اسے جماعت کا سالانہ سب سے بڑا اعزاز ’’شری گرو جی ایوارڈ‘‘دیا گیا۔یہ اسی رہنما کو ملتا ہے جو نظریہ ہندتوا کو مقبول بنانے میں بھرپورجدوجہد کرے۔ تاہم جب قومی سطح پر ضلع ڈنگ کے عیسائی مخالف فساد پر بین الاقوامی شور مچا،تو بی جے پی حکومت کو ایکشن لینا پڑا۔وزیر داخلہ،ایل کے ایڈوانی نے اپنے وزیر اعلیٰ گجرات ،کیشو بھائی پٹیل کو حکم دیا کہ ضلع ڈنگ میں پرچاریوں کا کام روک دیاجائے۔چناں چہ آسیمانند اور اس کے رضا کاروں کو مزید تبلیغی سرگرمیوں سے روک دیا گیا۔ لیکن یہ بندش عارضی تھی ۔چند ماہ بعد فساد لوگوں کے اذہان سے محو ہوا،تو سوامی پھرسرگرم ہو گیا۔اس بار اسے سنگھ پریوار کے کئی بڑے رہنمائوں کی سرپرستی بھی حاصل تھی۔انہی میں نریندر مودی بھی شامل تھا،آر ایس ایس کا لڑاکا رہنما جو وزیر اعلیٰ گجرات بننے کی خاطر چاقو چھریاں تیز کر رہا تھا۔ انہی دنوں احمد آباد(گجرات) میں آر ایس ایس کے سینئر رہنمائوں کی میٹنگ ہوئی۔اس میں مودی ،سوامی آسیمانند سے ملا اور کہنے لگا:’’مجھے معلوم ہے کہ کیشو بھائی نے تمہارے ہاتھ پائوں باندھ دیے ہیں ۔سوامی جی!آپ جو کچھ کر رہے ہیں وہ کوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔مجھے وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ ہو چکا۔میں جیسے ہی حکومت میں آیا،آپ کو آزادی مل جائے گی۔اطمینان رکھیے۔‘‘ ہندتوا کی سرعام ترویج اکتوبر 2001ء میں نریندر مودی وزیراعلی گجرات بن گیا۔اس کے حکومت سنبھالتے ہی سنگھ پریوار کے کارکن دلیر ہو گئے اور شد و مد سے ہندتوا کا پرچار کرنے لگے۔ان کی شدت پسندی کا نتیجہ مسلمانوں سے زبردست ٹکرائو کی صورت نکلا جو ریاست میں سب سے بڑی اقلیت تھے۔ فروری تا مارچ 2002ء سنگھ پریوار کے غنڈوںنے بے شمار گجراتی مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی۔انھوں نے جس بربریت و سفاکیت کا مظاہرہ کیا ،اسے دیکھ کر شیطان بھی تھّرا اٹھا ہو گا۔ان غنڈوں کو مودی حکومت اور ریاستی انتظامیہ کی مکمل حمایت حاصل تھی۔آسیمانند فخر سے بتاتا ہے:’’اس موقع پر ضلع پنچ محل(نزد ضلع ڈنگ)سے میری قیادت میں مسلمانوں کا صفایا کر دیا گیا۔‘‘ ہندومت کی ترقی کے لیے اکتوبر2002ء میں آسیمانند نے سورت کے نزدیک ’’شبری دم‘‘(shabri dham) نامی ایک یادگار تعمیر کرانے کا اعلان کیا۔یہ اس مقام پہ تعمیر ہوئی جہاں روایات کے مطابق جلاوطن اور بھوکے رام جی کو شبری نامی ایک قبائلی خاتون نے کھانا کھلایا تھا۔اس جگہ مندر اور آشرم بنانے کا پروگرام بنا۔ منصوبے کے لے رقم جمع کرنے کی خاطر آسیما نند نے ’’رام کتھا‘‘کا اہتمام کیا۔اس تقریب میں ممتاز ہندو داستان گو،موراری باپو آٹھ دن تک رام کی جگ بیتی سناتا رہا۔تقریباً دس ہزار لوگوں نے کتھا سنی۔امیر ماڑواڑیوں نے بطور چندہ لاکھوں روپے دئیے۔آخری دن مودی بھی داستان سننے آیا …حالانکہ وہ ریاستی انتخابات میں بری طرح پھنسا ہو ا تھا۔چونکہ آسیمانند اور آر یس ایس کے دیگر لیڈروں کی سعی کی سے ریاست میں ہندوئوں کا کٹرپن ابھر چکا تھا،سو الیکشن اسی نے جیتے۔ مودی دوبارہ وزیراعلی بنا،تو سنگھ پریواروسیع پیمانے پہ ریاست میں اپنی مذہبی سرگرمیاں انجام دینے لگا۔ان سرگرمیوں میں آسیمانند پیش پیش تھا۔اس نے جوش و خروش سے اپنا ’’گھر واپسی منصوبہ‘‘پھر شروع کر دیا۔بعد ازاں اسی کی خواہش پہ سنگھ پریوار نے شبری دم میں ’’نیا کمبھ میلا‘‘منعقد کرنے کا اعلان کر دیا۔(یاد رہے،یہ ہندوئوں کا سب سے بڑا میلا ہے جو ہر تین سال بعد چار مقامات پہ لگتا ہے۔)مقصد یہ تھا کہ علاقے کو پوری دنیا میں مشہور کر دیا جائے۔ آسیمانند چار برس تک اس میلے کی تیاریاں کرتا رہا جو فروری 2006ء میں منعقد ہوا۔اس میں دنیا بھر سے آئے تقریباً پانچ لاکھ ہندو شریک ہوئے۔یہ میلا شبری دم کے نزدیک واقع ایک مقامی دریا کے کنارے لگایا گیا۔تب دریا میں سیکڑوں قبائلیوں کو غسل دیا گیا تاکہ وہ پوتّر ہو کے ہندو بن سکیں۔مودی حکومت نے کروڑوں روپیہ خرچ کر کے ٹینکوں سے دریا میں پانی چھوڑا تاکہ لاکھوں لوگ اس میں غسل کر لیں۔ اقلیتوں کے خلاف کپت یدھ شبری دم کمبھ میلے میں سنگھ پریوار سے تعلق رکھنے والے تمام اہم سیاسی و سماجی رہنمائوں کے علاوہ متفرق ہندو مذہبی فرقوں کے قائدین بھی شریک ہوئے۔سنگھ کے دو ہزار کارکنوں نے میلے کے انتظامات سنبھالے۔یوں یہ میلا ہمہ رنگ اور متنوع ہندو انتہا پسند جماعتوں کے لیڈروں کا غیرمعمولی اجتماع بن گیا۔ میلے کے پہلے دن وزیراعلی گجرت،نریندر مودی نے تقریر کرتے ہوئے لاکھوں حاضرین کو بتایا:’’رام کو کسی صورت قبائلیوں سے دور نہیں رکھا جا سکتا۔‘‘اس وقت کے آرایس ایس سربراہ،ایس سدرشن نے زیادہ جارحانہ انداز اختیار کیا:’’ہم انتہا پسند مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف ’’کپت یدھ(قطعی جنگ)کا آغازکر چکے۔یہ یدھ جیتنے کے لیے ہم اپنے تمام وسائل استعمال کریں گے۔‘‘ایس سدرشن کے ڈپٹی(بعد ازاں سربراہ آر ایس ایس)موہن بھگوت نے دہمکی دی:’’جنھوں نے ہم سے پنگا لیا،ہم ان کے دانت توڑ ڈالیں گے۔‘‘ شبری دم کمبھ میلے کی کامیابی نے سوامی آسیمانند کو مذید شہرت دے ڈالی۔ویسے بھی وہ تب تک آر ایس ایس میں شامل ہونے والے نوجوان لڑکے لڑکیوں کے مابین ’’مہان‘‘حیثیت پا چکا تھا۔کئی نوجوان سوامی پہ رشک کرتے کہ وہ ہزارہا غیرمذہبوں کوہندو بناچکا ۔انہی نوجوانوں میں پرگیا سنگھ ٹھاکر اور سنیل جوشی نمایاں تھے۔پرگیا سنگھ آر ایس ایس کی طلبہ تنظیم،اخیل بھارتیہ ودیارتھی پریشد میں اہم عہدہ رکھتی تھی۔جبکہ سنیل ضلع اندور میں آرایس ایس کا ضلعی صدر تھا۔ دونوں کے جاننے والے انھیں ’’کھسکا ہوا‘‘اور مذہبی دیوانے کہتے تھے۔پرگیا کی زندگی کا واحد مقصد ہندتوا نظریہ کی ترویج اور مخالفین کا خاتمہ کرنا تھا۔وہ عموماً مردانہ لباس زیب تن کرتی تاکہ اسے عورت(ہندو معاشرے میں کمزوری کی علامت)نہ سمجھا جائے۔سنیل جوشی بھی ہندومت کی خاطر جان دینے کو تیار رہتا۔جب وہ فارغ ہوتا ،تو سارا دن مندر میں بیٹھا بھجن پڑھتا یا پوجا کرتا۔ سوامی کا اگلا نشانہ:مسلمان جب ضلع ڈنگ میں عیسائی مشنری پسپا ہو گئے،تو بھارتی مسلمان آسیمانند کی نگاہوں میں کھٹکنے لگے۔خصوصاً وہ جب بھی پرگیا سنگھ و دیگر پُرجوش نوجوانوں سے ملتا ،تو یہی رونا رونے لگتا کہ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔اسے خطرہ تھا کہ مسلم آبادی یونہی بڑھتی رہی تو بھارتی مسلمان ایک دن دوسرا پاکستان تخلیق کر ڈالیں گے۔سو وہ ان طریقوں پہ سوچ بچار کرتا رہتا جن کے ذریعے مسلم آبادی گھٹائی جا سکے۔ آسیمانند اور سنگھ پریوار کے دیگر لیڈر یہ دیکھ کر بھی پیچ و تاب کھاتے کہ مسلم جہادی (بقول بھارتی حکومت کے ) مندروں پہ بم حملے کر رہے ہیں۔مثلاً 2002ء میں ریاست گجرات کے صدرمقام،گاندھی نگر میں واقع اکساہاردہم مندر میں بم پھٹا جس نے 30ہندو یاتری مار ڈالے تھے۔سو آسیمانند نے پرگیا سنگھ اور دیگر رہنمائوں کے ساتھ مل کے منصوبہ بنایا کہ بھارتی مسلم شہریوں پہ بم حملے کیے جائیں… بم کا بدلہ بم! (باقی صفحہ30پر) بقیہ :بھگت سے دہشت گرد بننے تک شبری دم کمبھ میلے کے موقع پر موہن بھگوت اور آر ایس ایس کی ایگزیکٹیو کمیٹی کا رکن،اندریش کمہار بھی شریک ہوئے۔آسیمانند نے دہشت گردی کا اپنا منصوبہ انہی کے سامنے رکھا۔دونوں نے اسے نہ صرف پسند کیابلکہ سوامی کو یقین دہانی کرائی کہ منصوبے کو عملی جامہ پہننانے کے لیے اس کو سرمایہ اور افرادی قوت ،دونوں مہیا کی جائے گی۔وہ خوش تھے کہ سوامی بھرپور انداز میں ہندومت کی خدمت کر رہا ہے۔ آر ایس ایس …دو مونہی جماعت اب پلان پہ عمل کرتے ہوئے آسیمانند چپ چاپ منظر عام سے ہٹ گیا تاکہ عمیق طور پہ بم حملوں کی منصوبہ بندی کر سکے۔پس منظر میں جانے کا ایک بڑا مقصد یہ بھی تھا کہ وہ آر ایس ایس سے بظاہر ناتا توڑ لے۔تنظیم کا یہ طریق واردات 1948ء سے چلا آ رہا ہے جب آر ایس ایس کے دہشت گرد،نتھورام گوڈسے نے گاندھی جی کو قتل کیا تھا۔ اس سمیّ آر ایس ایس نے عدالتوں میں یہ موقف اختیار کیا کہ نتھو رام اور اس کے ساتھی تنظیم کے سابق کارکن ہیں۔چناں چہ آر ایس ایس کا ان سے کوئی تعلق نہیں(حالانکہ قتل کے منصوبے کو تنظیم کے اعلی ترین لیڈروں کی تائید حاصل تھی)۔اسی موقف کی بنا پہ نہرو حکومت کو تنظیم پہ لگائی پابندی ہٹانی پڑی۔ سو تب سے آرایس ایس بطور دو مونہی جماعت کام کر رہی ہے۔بظاہر یہ ہندو عوام کو تعلیم ، صحت اور روزگار وغیرہ سے منسلک سماجی خدمات مہیا کرتی ہے۔مگر پوشیدہ لحاظ سے اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف بھی سرگرم عمل ہے تاکہ بھارت سے ان کا وجود ختم کر سکے۔حالیہ مظفرنگر مسلم کش فسادات کرانے میں آر ایس ایس کے رہنمائوں نے اہم کردار اداکیا۔اس تنظیم کی منزل بھارت میں ہندو راج قائم کرنا ہے۔ آرایس ایس کی حکمت عملی پہ حیدرآباد یونیورسٹی (دکن)سے وابستہ پروفیسر سیاسیات،جیوتی رمیا شرما( Jyotirmaya Sharma) تین کتب تحریر کر چکے۔پہلے ہندو دانشور ہیں جو اس تنظیم کا پوشیدہ رخ سامنے لائے۔ان کا کہنا ہے:’’آر ایس ایس عیاں و خفیہ،دونوں قسم کی سرگرمیاں انجام دیتی ہے۔ٖخفیہ جنگ لڑنے کا طریق کار یہ ہے کہ ’’مارو اور بھاگ جائو۔‘‘ایسی گوریلا جنگ کا نظریہ شیوا کے گرو،رام داس نے پیش کیا تھا۔بھارت میں بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ حکومتی ادارے اتنے طاقتور نہیں کہ وہ مذہب کے نام پہ دن دیہاڑے ہونے والی اس دہشت گردی کو روک سکیں۔‘‘ بم دہماکوں کی منصوبہ بندی شبری دم کمبھ میلے کے صرف دو ہفتوں بعد بنارس شہر دو بم دہماکوں سے لرز اٹھا۔ایک دہماکہ مندر جبکہ دوسرا ریلوے اسٹیشن میں ہوا۔بم حملوں میں 28افراد مارے گئے،سو سے زائد زخمی ہوئے۔بھارتی سیکورٹی اداروں نے حسب ِمعمول ان حملوں کا ذمے دار مسلم جہادیوں کو قرار دیا۔آسیمانند نے فوراً پرگیا سنگھ ، سنیل جوشی اور دیگر انتہاپسند ہندو کارکنوںکی میٹنگ بلائی جس میں فیصلہ ہوا کہ حملوں کا منہ توڑ جواب دیا جائے۔ سنیل جوشی جلد ہی اپنے ایک ساتھی،ریتشواڑ کے ساتھ جھاڑکھنڈ جا پہنچا اور وہاں سے پستول اور وہ سم کارڈ خریدے جنھیں بموں میں بہ حیثیت ڈیٹونیٹر استعمال کرنا مقصود تھا۔اس خریداری کے لیے انھیں آسیمانند نے پچیس ہزار روپے دئیے تھے۔ریاستی ضلع جمتھدا کے آر ایس ایس سربراہ،دیوندر گپتا نے انھیں جعلی ڈرائیونگ لائسنس فراہم کیے تاکہ وہ ان کی بنیاد پہ سمیں خرید سکیں۔ جون 2006ء میں اسلحہ خرید کر دونوں واپس شبری دم پہنچ گئے۔ان سے پہلے پرگیا سنگھ آر ایس ایس کے چار رضاکاروں…سندیپ ڈنگی،رام چندر کالسنگرہ ،لوکیش شرما اور امیت کو لیے وہاں پہنچ چکی تھی۔سندیپ ضلع شجاع آباد (مدھیہ پردیش)کا ضلعی صدر جبکہ بقیہ افراد مختلف اضلاع میں آر ایس ایس کے سینئر کارکن تھے۔ اب بم حملے کرنے کی خاطر تین ٹیمیں تشکیل دی گئیں۔پہلی ٹیم نے ان نوجوانوں کو بھرتی کرنا تھا جو منتخب جگہ تک بم لے جائیں۔وہی ان کے قیام و طعام کا بندوبست بھی کرتی۔دوسری ٹیم کے ذمے یہ کام لگا کہ وہ بموں کی تیاری میں مستعمل متفرق سامان جمع کرے۔تیسری ٹیم کے کارکنوں کو بم بنانے کی ذمے داری سونپی گئی۔ سنیل کو ان تینوں ٹیموں کے مابین رابطہ کار بنایا گیا۔اسی نے سب سے پہلے تجویز دی کہ سمجھوتہ ایکسپریس کو نشانہ بنایا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ پاکستانی مارے جا سکیں۔آسیمانند چاہتا تھا کہ مالیگائوں،حیدرآباد ،اجمیر شریف اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مسلمانوں پہ بم حملے کیے جائیں۔تب وہ انتقام کی آگ میں سلگ رہے تھے جس نے ان میں خیر کے جذبوں اور ضمیر کو جلا ڈالا۔یوں وہ نہتے اور بے گناہ اسلامیوں کی جان کے درپے ہو گئے۔ انتہاپسندوں کا پہلا وار انتہاپسندوں کے اس ٹولے نے 8ستمبر 2006 ء کو ہم وطن مسلمانوں پہ پہلا حملہ کیا۔مالیگائوں کی جامع مسجد سے ملحق قبرستان میں بہ موقع شب ِبرات کئی مسلمان پیاروں کی قبروں پہ فاتحہ پڑھ رہے تھے کہ بم دہماکوں کا شکار ہو گئے۔اس حملے نے 37مرد،عورتیں اور بچے شہید کر ڈالے۔بھارتی سیکورٹی اداروں نے نہ صرف مسلم ’’دہشت گردوں‘‘کو اس حملے کا ذمے دار قرار دیا بلکہ بہت سے مقامی بے قصور مسلمان نوجوان بھی گرفتار کر لیے۔ اقبالِ جرم کرانے کی خاطر انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کامیابی نے ہندو انتہاپسندوں کے حوصلے بلند کر دئیے۔16فروری 2007ء کو آسیمانند اور سنیل جوشی کی ملاقات ہوئی۔سنیل نے سوامی کو خبر دی کہ وہ جلد ایک بڑی خوش خبری سنے گا۔دو ہی دن بعد سمجھوتہ ایکسپریس آگ و خون میں نہلا دی گئی۔یہ حملہ سندیپ ڈگی نے ساتھیوں کے ساتھ انجام دیا۔ ٹولے نے معصوم بھارتی مسلمانوں کے خلاف وقفے وقفے سے دہشت گردی جاری رکھی۔18مئی کو حیدرآباد دکن کی مکہ مسجد کے باہر بم دہماکہ کیا گیا۔اس کی زد میں آ کر سولہ مسلم شہید ہوئے۔جبکہ سو سے زیادہ زخمی ہو گئے۔11اکتوبر کو انھوں نے اجمیر شریف کی درگاہ کے باہر بم پھوڑا۔وہ بھی تین مسلمانوں کو جان بحق کر گیا۔ سنیل جوشی کا قتل آخر خدا کی بے آواز لاٹھی حرکت میں آئی اور 29دسمبر 2007ء کو آر ایس ایس کے دہشت گرد گروہ کو پہلا چرکہ لگا۔اس دن سنیل جوشی اپنے آبائی قصبے،دیواس(مدھیہ پردیش)میں پُراسرار طور پہ مارا گیا۔بھارتی میڈیا کا دعوی ہے کہ اس کی مختلف لوگوں سے دشمنیاں چل رہی تھی۔سو کسی دشمن نے اسے گولیوں سے بھون ڈالا۔تاہم آر ایس ایس مخالف قوتوں کا کہنا ہے کہ سنیل اور پرگیا سنگھ میں اختیارات کی جنگ چھڑ گئی تھی۔جب معاملہ قابو سے باہر ہونے لگا تو تنظیم کی اعلی قیادت نے سنیل کو مروا دیا کیونکہ وہ تمام بم حملوں کا چشم دید گواہ تھا۔سو اسے بڑا خطرہ سمجھتے ہوئے آر ایس ایس نے اس کا قصّہ ہی تمام کر ڈالا۔ اب سنڈیپ ڈنگی دہشت گردوں کی مختلف ٹیموں کے مابین رابطہ کار بنا۔اس کی رہنمائی میں بھارتی اسلامیوں پہ بم حملے جاری رہے۔بعض حملے ناکام ہو گئے کیونکہ بم پھٹ نہ سکے۔تاہم 29ستمبر 2008 کو مالیگائوں پہ دوسرا بم حملہ کامیاب رہا۔اس دہماکے نے آٹھ مسلمانوں کو قیمتی جانوں سے محروم کر دیا۔انتہاپسند ہندوئوں نے اسی دن گجراتی قصبے،موداسا میں بھی جامع مسجد کے باہر بم پھوڑاجس نے ایک پندرہ سالہ مسلم لڑکا مار ڈالا۔ ہیمنت کرکرے کی تفتیش آر ایس ایس کا یہ سفاک ٹولہ موت و خون کا اپناوحشیانہ کھیل شاید طویل عرصے جاری رکھتا تاہم ریاست مہاراشٹر میں اسے ایک فرض شناس اعلی پولیس افسر،،ہیمنت کرکرے ٹکر گیا۔وہ ریاستی انسداد دہشت گردی فورس کا سربراہ تھا۔ مذید براں پرگیا سنگھ کی معمولی غلطی نے بھی ٹولے کا راز افشا کر دیا۔مالیگائوں بم حملے میںجو موٹر سائیکل استعمال ہوئی ،وہ پرگیا کی ملکیت تھی۔اسے یقین تھا کہ دہماکہ بائک کے پرخچے اڑا دے گا۔مگر خدا کا کرنا یہ ہو ا کہ اس کی نمبر پلیٹ تباہی سے بچ گئی اور اسی نے خفیہ ایجنسیوں کے سراغ رسانوں کو پرگیا تک پہنچا دیا۔ جب ہیمنت کرکرے کو معلوم ہوا کہ دہشت گردی کے واقعہ میں استعمال ہونے والی بائک پرگیا سنگھ کی ہے،تو اس نے ملزمہ کو گرفتار کر لیا۔یوں بالآخر آر ایس ایس خونی گروہ طشت از بام ہونے لگا۔ہیمنت کرکرے نے تفتیش کا دائرہ پھیلایا ،تو ٹولے میں شامل دیگر دہشت گرد بھی رفتہ رفتہ سامنے اور قانون کی گرفت میں آنے لگے۔ بھارت میں اس خبر نے ہلچل مچا دی کہ پچھلے چند برس میں کئی بم دہماکے سنگھ پریوار کے دہشت گردوں نے کیے اور ان کا الزام غلط طور پہ مسلم نوجوانوں پہ تھوپ دیا گیا۔لیفٹینٹ کرنل شری کانت پروہت کی گرفتاری نے معاملے کو نئی جہت دے ڈالی۔اس نے آشکارا کیا کہ فوج،خفیہ ایجنسیوں اور پولیس میں ہندتوا نظریے سے ہمدردی رکھنے والے افسر و کارکن بکثرت پائے جاتے ہیں۔لیفٹینٹ کرنل پروہت نے دہشت گردوں کو آرمی ڈپو سے آتش گیر مادہ،آر ڈی ایکس فراہم کیا تھا جس سے سمجھوتہ ایکسپریس میںآگ لگائی گئی۔نیز وہ بم اسمبلی بھی ٹولے کو دیتا رہا۔ ہندو مذہب کا ’’غدار ‘‘ گرفتار شدگان میں سے چند کارکنوں نے دوارن تفتیش یہ بھانڈا بھی پھوڑ دیا کہ پورے گروہ کو آر ایس ایس کے قومی رہنما،اندریش کمہار کی حمایت حاصل تھی۔جب ہیمنت کرکرے نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے یہ سچائی بیان کی تو سنگھ پریوار میں کھلبلی مچ گئی۔انھوں نے کرکرے کو جھوٹا اور ہندو مذہب کا ’’غدار ‘‘قرار دیا۔ آر ایس ایس نے پھر اندریش کمار کی حمایت میں مختلف شہروں میں جلسے منعقد کیے اور جلوس نکالے۔تنظیم کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ اس کا قائد،موہن بھگوت بھی احتجاجی جلسوں میں شریک ہوا۔(اب آ کر انکشاف ہوا ہے کہ دہشت گرد گروہ کو بھگوت صاحب کی بھی سرپرستی حاصل تھی،اسی لیے موصوف اندریش کمہار کے دفاع میں بہت سرگرم رہے) ممکن تھا کہ کرکرے کی تفتیش آر ایس ایس کے مذید رہنمائوں کے چہروں پہ چڑھا پاکیزگی کا نقاب اتار پھینکتی کہ 26نومبر2008ء کا دن آ پہنچا۔اس روز صرف دس افراد نے پورے ممبئی شہر کو یرغمال بنا لیا۔اسی حملے کے دوران ہیمنت کرکرے پُراسرار طور پہ ہلاک ہو گئے۔ بھارتی خفیہ اداروں کا دعوی ہے کہ کرکرے کسی حملہ آور کی گولیوں کا نشانہ بنے،تاہم یہ خیال عام ہے کہ بھارتی سیکورٹی اداروں میں موجود ہندتوا کے حامیوں نے انھیں مار ڈالا۔انھیں یہ شدید غصّہ تھا کہ کرکرے ہندومت اور دہشت گردی کا تعلق جوڑنے پہ تلے بیٹھے ہیں۔سو کرکرے قتل کر دیے گئے۔اس معاملے پہ ممبئی پولیس کے سابق چیف،آئی جی (ر) ایس ایم مشرف کی کتاب’’Who Killed Karkare? The Real Face Of Terrorism In India‘‘بھرپور انداز میں روشنی ڈالتی ہے۔ قانون کے شکنجے میں تاہم ہیمنت کرکرے نے تفتیش کا دائرہ کار اتنا زیادہ پھیلا دیا تھا کہ حکمران طبقے میں بیٹھے نظریہ ہندتوا کے متوالے اس کا راستہ نہ روک سکے۔جلد ہی وفاقی حکومت کے تحقیقاتی اداروں،سی بی آئی(سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن)اور این آئی اے (نیشنل انویسٹی گیشن)نے آر ایس ایس دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف چھان بین اپنے ہاتھوں میں لے لی۔یوں معاملہ بڑھتا چلا گیا۔ گرفتار شدگان سے مذید پوچھ گچھ ہوئی ،تو پتا چلا کہ اس گروہ کا مکھیا سوامی آسیمانند تھا۔وہی بم حملوں کی منصوبہ بندی کرتا،ٹارگٹ دیکھتا بھالتا،اسلحہ خریدنے کے لیے رقومات دیتا اور دہشت گردوں کو جائے پناہ بھی فراہم کرتا۔چناں چہ سوامی کو گرفتار کرنے کے لیے چھاپے مارے جانے لگے۔آسیمانند نے قانون کو پیچھے آتا پایا تو روپوش ہو گیا۔وہ پھر مختلف جہگوں میں چھپتا پھرتا رہا۔آخر نومبر 2010ء میں گرفتار ہو گیا۔ دسمبر 2010ء اور جنوری 2011ء میں آسیماند نے نئی دہلی اور ہریانہ کی عدالتوں میں یہ حلفیہ بیان دئیے کہ وہ مسلمانوں پہ بم حملوں کے منصوبوں میں شریک رہا ہے۔یاد رہے ،یہ بیان پولیس نہیں مجسٹریٹوں کے سامنے دئیے گئے جو جو ان کی سچائی کا ثبوت ہیں۔دراصل تب سوامی کے ذہن میں یہ نکتہ تھا کہ اس کی گرفتاری اور اقرار جرم کے باعث زیادہ سے زیادہ ہندوئوں میں نظریہ ہندتوا پھیلے گا۔ لیکن بعد ازاں سنگھ پریوار کے لیڈروں کو احساس ہوا کہ سوامی آسیمانند کے اقرار جرم سے بھارت میں سیکولر و کیمونسٹ سیاسی طاقتوں کو قوت مل گئی۔وہ بہ بانگ دہل کہنے لگیں کہ انتہا پسند ہندو جماعتیں دہشت گردی میں ملوث ہیں،سو ان سے دور رہا جائے۔چناں چہ سوامی نے الٹا سنگھ پریوار کو نقصان پہنچا دیا۔اسی لیے سنگھ پریوار سے منسلک وکلا کے مشورے پہ مارچ 2011 ء میںآسیمانند اپنے بیانات سے پھر گیا۔سوامی نے پولیس پر الزام لگایا کہ مارپیٹ کے بعد اس سے مطلوبہ بیان لیے گئے۔تب سے عدالتوں میں سوامی کے مقدمے زیرسماعت ہیں۔ ’’سندھو‘‘ کو پانے کی تڑپ آسیمانند کی قیادت میں آر ایس ایس نیٹ ورک نے پاکستانی و بھارتی مسلمانوں پہ کم از کم آٹھ بم حملے کیے۔ان میں سوا سو مسلمان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ،جبکہ کئی سو زخمی ہوئے۔یوں ان انتہا پسندوں نے اپنی مذہبی جنونیت کے باعث سیکڑوں ہنستے بستے گھر اجاڑ ڈالے ۔بھارتی سراغ رساں ادارے اب تک اس گروہ سے وابستہ ’’33‘‘دہشت گرد گرفتار کر چکے۔مگر وہ سنگھ پریوار کے قومی لیڈروں پہ ہاتھ ڈالنے سے گریزاں ہیں۔ گریز کی بڑی وجہ یہی ہے کہ بھارتی حکمران طبقے،عدلیہ،افسر شاہی اور سیکورٹی ڈھانچے میں اوپر سے نیچے تک ہندتوا کے حامی بیٹھے ہیں۔ان کی یہی خواہش ہے کہ بھارت میں ہندو راج قائم ہو جائے۔وہ سیکولر و کیمونسٹ جماعتوں کی انسان و مسلم دوستی سے خار کھاتے ہیں۔ سوامی آسیمانند کو یقین ہے کہ جیسے ہی نریندر مودی وزیراعظم بنا ،سنگھ پریوار کے سبھی گرفتار شدہ رہنما اور کارکن رفتہ رفتہ ثبوتوں کی ’’عدم موجودگی‘‘کے باعث رہا ہو جائیں گے۔چند ہفتے قبل عدالتوں نے اسی وجہ سے گجرات میں سیکڑوں مسلمانوں کے قاتل،مودوی کو بے گناہ قرار دے ڈالا۔سوامی ساتھیوں کو بس چند ماہ انتظار کرنے کا کہتا اور نتھو رام کا یہ آخری جملہ اکثر دہراتا ہے: ’’میری ہڈیاں اسی وقت سمندر میں بہانا جب سندھو (دریائے سندھ) دوبارہ بھارت ماتا کا حصہ بن جائے۔‘‘ گویا آسیمانند اور سنگھ پریوار کے دیگر لیڈر بے چینی سے اس وقت کی راہ تک رہے ہیں جب خدانخواستہ پاکستان اور بنگلہ دیش صفحہ ہستی سے مٹ کر بھارت ماتا میں شامل ہوں گے۔انتہا پسند ہندوئوں کی سب سے بڑی ڈھکی چھپی تمنا یہی ہے۔ ٭٭٭
Dunya.com.pk