Pages

Artificial Intelligence (AI), Risks and Benifits کیا مصنوعی ذہانت انسانی نسل کا خاتمہ کر دے گی؟



Artificial Intelligence (AI):
Capabilities currently classified as AI include successfully understanding human speech, competing at a high level in strategic game systems (such as chess and Go, self-driving cars, intelligent routing in content delivery networks, and interpreting complex data.
Image result for artificial intelligence
The AI field draws upon computer science, mathematics, psychology, linguistics, philosophy, neuroscience and artificial psychology.


The field was founded on the claim that human intelligence "can be so precisely described that a machine can be made to simulate it". This raises philosophical arguments about the nature of the mind and the ethics of creating artificial beings endowed with human-like intelligence, issues which have been explored by myth, fiction and philosophy since antiquity. Some people also consider AI a danger to humanity if it progresses unabatedly.
Many tools are used in AI, including versions of search and mathematical optimization, logic, methods based on probability and economics.


Philosophy and ethics:
There are three philosophical questions related to AI:
1.Is artificial general intelligence possible? Can a machine solve any problem that a human being can solve using intelligence? Or are there hard limits to what a machine can accomplish?
2.Are intelligent machines dangerous? How can we ensure that machines behave ethically and that they are used ethically?
3.Can a machine have a mind, consciousness and mental states in exactly the same sense that human beings do? Can a machine be sentient, and thus deserve certain rights? Can a machine intentionally cause harm?


Potential risks and moral reasoning:
Widespread use of artificial intelligence could have unintended consequences that are dangerous or undesirable. Scientists from the Future of Life Institute, among others, described some short-term research goals to be how AI influences the economy, the laws and ethics that are involved with AI and how to minimize AI security risks. In the long-term, the scientists have proposed to continue optimizing function while minimizing possible security risks that come along with new technologies.


Machines with intelligence have the potential to use their intelligence to make ethical decisions. Research in this area includes "machine ethics", "artificial moral agents", and the study of "malevolent vs. friendly AI".


Existential risk:
A common concern about the development of artificial intelligence is the potential threat it could pose to mankind. This concern has recently gained attention after mentions by celebrities including Stephen Hawking, Bill Gates,and Elon Musk


The development of full artificial intelligence could spell the end of the human race. Once humans develop artificial intelligence, it will take off on its own and redesign itself at an ever-increasing rate. Humans, who are limited by slow biological evolution, couldn't compete and would be superseded.
— Stephen Hawking


Superintelligence:


Are there limits to how intelligent machines – or human-machine hybrids – can be? A superintelligence, hyperintelligence, or superhuman intelligence is a hypothetical agent that would possess intelligence far surpassing that of the brightest and most gifted human mind. ‘’Superintelligence’’ may also refer to the form or degree of intelligence possessed by such an agent.

https://en.wikipedia.org/wiki/Artificial_intelligence

http://www.bbc.com/news/technology-30290540
More: http://justonegod.blogspot.com/
Artificial intelligence makes human morals more important:
http://peace-forum.blogspot.com/2016/10/artificial-intelligence-makes-human.html
http://www.nytimes.com/2009/07/26/science/26robot.html?_r=2&hp


معروف محقق پروفیسر اسٹیفن ہاکنگ نے بی بی سی کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں مصنوعی ذہانت کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے خیال میں مکمل مصنوعی ذہانت کی ترقی انسانی نسل کا خاتمہ کر دے گی۔ ’ایک دفعہ انسانوں نے اسے بنا لیا تو اس کی ارتقا کا عمل خود ہی آگے بڑھتا رہے گا اور انسان اپنے سست حیاتیاتی ارتقاء کی وجہ سے اس کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔‘

کیلی فورنیا کے مشہور سلیکن ویلی میں بڑے ہونے والے سرمایہ کار اور مصنف مائیکل ایس ملون کے مطابق مشینیں انسانوں سے زیادہ دیر زندہ رہ سکتی ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہر زندہ چیز کا دل اس کی پوری زندگی میں تقریباً ایک ارب دفعہ دھڑکتا ہے اور دوسری جانب ایک جدید مائیکرو پروسیسر ہر سیکنڈ میں پانچ سے دس ارب حساب کرتا ہے۔ اس طرح ہم کہ سکتے ہیں بنیادی طور پر یہ آلات لازوال ہیں اور ہمیشہ زندہ رہ سکتے ہیں۔‘
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم مشینوں سے ابدی زندگی کا راز حاصل کر سکتے ہیں؟
اوپن ورم نامی ایک منصوبے پر کام کرنے والے سائنسدانوں نے حال ہی میں ایک چھوٹے کیچوے کے 302 نیوران کنکشنز پر مشتمل دماغ کا ایک نقشہ بنا یا اور اس نقشے کی طرز پر ایک سافٹ ویئر پروگرام بنایا گیا ہے۔ یاد رہے کہ انسانی دماغ تقریباً 100 کھرب نیوران کنکشنز پر مشتمل ہو تا ہے۔
اس پروگرام کو پھر ایک سادہ روبوٹ میں ڈالا گیا۔
صحافی لوسی بلیک کے مطابق یہ دعوی کیا گیا کہ اس روبوٹ میں کیچوے کی حرکات کا مشاہدہ کیا گیا۔
مائیکل ملون کا کہنا ہے کہ کسی موڑ پر ہم بھی اپنے دماغ کا نقشہ کمپیوٹر میں ڈال دیں گے جس کی وجہ سے ہمیں مشین جیسی ابدی زندگی مل جائے گی۔
ان کو اس بات کا خوف بھی ہے کہ جب ہمارا دماغ ایک مشین میں منتقل ہو جائے گا تو ہماری خودی اور شعور کا کیا ہوگا؟ کیا ہم انسان رہیں گے؟ تب کیا ہو گا اگر ہم اپنے وجود کے بغیر ہمیشہ کے لیے زندہ رہیں گے؟
اس کی پریشان کن مثالیں موجود ہیں جب انسان اپنے حیاتیاتی حصوں میں سے کچھ کا کمپیوٹر یا مشین سے ادل بدل کرتا ہے تو کیا نتیجہ نکلتا ہے۔

ڈاکٹر بارنی کلارک پہلے شخص تھے جن کے سینے میں 1982 میں مصنوعی دل گایا گیا تھا
امریکی ریاست سیئٹل کے ڈاکٹر بارنی کلارک پہلے شخص تھے جن کے سینے میں 1982 میں مصنوعی دل گایا گیا تھا۔جس کے بعد وہ 11 برس تک زندہ رہے مگر وہ اس قدر بیمار اور اداس تھے کہ مرنے کی اجازت دینے کی منت کر تے رہے۔
تو شاید ہم جذباتی طور پر ابھی مشین بننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
مگر ڈاکڑ کلارک کے منفی تجربے کے باوجود سلیکن ویلی میں کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم مشین کے ذریعے دائمی زندگی حاصل کر سکتے ہیں۔
سلیکن ویلی کے تاجر اور سرمایہ کار پیٹر تھیل کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’ہو سکتا ہے کہ موت ایک قدرتی عمل ہو مگر موت کے خلاف لڑنا بھی ایک قدرتی عمل ہے۔‘
لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئہے کہ فطرت کو خود بھی واپس لڑنے کی عادت ہے۔
1859 میں ایک شمسی طوفان کے نتیجے میں اتنی گرمی پڑی تھی کہ چیزیں پگھل گئی تھیں اور کئی مقامات پر آگ بھی لگ گئی تھی۔

مائیکل ملون کہتے ہیں کہ ’اگر اس طرح کا ایک اور طوفان اگر آج کے دور میں آئے تو یہ ہر مشین کو خراب کر دے گا او اگر یہ ہوا تو انسانی تہذیب رک جائے گی۔‘
http://www.bbc.com/urdu/science/2014/12/141229_man_machine_atk
.........................................
ایٹم بم سے بھی بڑا خطرہ؟
سِلیکون وَیلی کے سٹار ایلون مَسک نے، جواسپیس ایکس اور ٹیسلا موٹرز کے بانی ہیں، گزشتہ سال موسمِ گرما میں خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’مصنوعی ذہانت‘ کی صورت میں انسان نے اپنی بقا کے لیے سب سے بڑے خطرے کو جنم دیا ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ ’مصنوعی ذہانت‘ ممکنہ طور پر وہ سب سے بڑی غلطی ہے، جو انسان سے سرزد ہوئی ہے۔

سب کچھ محض مبالغہ آمیز ہِسٹیریا؟
لیکن کیا ایسا نہیں ہے کہ ’مصنوعی ذہانت‘ کے حامل روبوٹ مستقبل میں انسان کو مدد اور تعاون فراہم کریں گے، جیسا کہ ہالی وُڈ کی تازہ سائنس فکشن فلم ’چَیپی‘ میں دکھایا گیا ہے؟ اس فلم کے مطابق اس روبوٹ کو اس طرح سے پروگرام کیا جاتا ہے کہ وہ سوچ بھی سکتا ہے اور محسوس بھی کر سکتا ہے۔ یہ روبوٹ پولیس کے ایک جارح روبوٹ یونٹ پر قابو پانے میں انسانوں کی مدد کرتا ہے۔

انتہائی تیز رفتار ڈرون سمندر میں غرق ہو گیا
حالیہ کچھ عرصے پر ایک نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ ابھی ’مصنوعی ذہانت‘ کے معاملے میں بہت کچھ گڑبڑ بھی ہو سکتی ہے مثلاً 2011ء کے موسمِ گرما میں امریکی فوج کے فالکن ایچ ٹی وی ٹو نامی ڈرون کی آزمائشی پرواز کوئی مثالی منصوبہ ثابت نہ ہوا۔ بغیر پائلٹ کے چلنے والا اور آواز سے زیادہ رفتار کا حامل یہ ہوائی جہاز اپنی پرواز شروع کرنے کے صرف نو منٹ بعد ہی سمندر میں غرق ہو گیا تھا

سب کچھ محض مبالغہ آمیز ہِسٹیریا؟
لیکن کیا ایسا نہیں ہے کہ ’مصنوعی ذہانت‘ کے حامل روبوٹ مستقبل میں انسان کو مدد اور تعاون فراہم کریں گے، جیسا کہ ہالی وُڈ کی تازہ سائنس فکشن فلم ’چَیپی‘ میں دکھایا گیا ہے؟ اس فلم کے مطابق اس روبوٹ کو اس طرح سے پروگرام کیا جاتا ہے کہ وہ سوچ بھی سکتا ہے اور محسوس بھی کر سکتا ہے۔ یہ روبوٹ پولیس کے ایک جارح روبوٹ یونٹ پر قابو پانے میں انسانوں کی مدد کرتا ہے۔
دیکھا جائے تو کچھ نیا نہیں ہے
اس موضوع پر تمام تر تازہ بحث مباحثے کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ فوجی نظاموں میں ’مصنوعی ذہانت‘ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ گزشتہ تقریباً بیس برسوں سے ’مصنوعی ذہانت‘ کے حامل اجزاء ہی کی بدولت بہت سے فوجی نظام بہتر طور پر کام کر رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال یورو فائٹر ہے۔
سائنس فکشن اور حقیقت کا ملاپ
وقت کے ساتھ ساتھ ’ذہین‘ مشینیں زیادہ سے زیادہ غیر معمولی ہوتی جا رہی ہیں گو روزمرہ زندگی سے ابھی وہ اتنی مطابقت نہیں رکھتی ہیں۔ چار ٹانگوں والا روبوٹ ’بِگ ڈاگ‘ اپنے ساتھ وزن لے کر ناہموار زمین پر چڑھ اتر سکتا ہے اور برف پر چل سکتا ہے۔ دریں اثناء گوگل نے یہ روبوٹ تیار کرنے والی کمپنی بوسٹن ڈائنیمِکس خرید لی ہے۔
تو پھر کیا کیا جائے؟
یقینی بات یہ ہے کہ ’مصنوعی ذہانت‘ کے حامل نظاموں میں ہونے والی تیز رفتار ترقی کے سبب اس بحث کی ضرورت بہرحال موجود ہے۔ ’مصنوعی ذہانت‘ کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے پیشگی کوششوں کی ضرورت ہے اور ’مصنوعی ذہانت‘ کو ذمے داری کے ساتھ پروگرام کرنے کے سلسلے میں کبھی نہ کبھی تو بنیادی اخلاقی اصول، سیاسی ضابطے اور معیارات طے کرنا ہی ہوں گے۔

http://www.dw.com/ur/g-18318373
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~


~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, Knowledge, Religion, Culture, Tolerance, Peace
انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی 
Books, Articles, Blogs, Magazines,  Videos, Social Media
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
سلام فورم نیٹ ورک  Peace Forum Network 
Join Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں 
Salaamforum.blogspot.com 
سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر"وہٹس اپپ"یا SMS کریں   
Join 'Peace-Forum' at Social Media, WhatsApp/SMS Name,Cell#at +923004443470
     
  
Facebook: fb.me/AftabKhan.page