Featured Post

SalaamOne NetWork

SalaamOne سلام   is   a nonprofit e-Forum to promote peace among humanity, through understanding and tolerance of religions, cul...

Should scientists be playing God?

A new gene-swapping technique in the US, yet untested on people, has sparked the ethics debate on human reproduction.
It is a procedure that could prevent children from inheriting rare, incurable diseases such as stroke, blindness, deafness, kidney failure and heart disease.
"What we're doing here [in the new technique] is a massive number of abnormal things to try and get rid of abnormality… You don't get eggs easily, women have to have their ovaries stimulated and sometimes they suffer as a result of that."
- Josephine Quintavalle, the director of Corethics
Healthy embryos are being created using two women and one man. Scientists are trying to eliminate defects that affect an estimated one in 4,000 children.

But it is stirring the ethics debate.
There are a lot of questions about the morality of having babies with three parents, the implications for the child's descendants, and the prospect of babies-to-order.

The research for the new technique is being conducted at Oregon Health and Science University in the US.

The procedure still needs US federal government approval to be tested on humans.

In 2009, scientists were able to create eggs with DNA transplants from Rhesus monkeys. Four developed into healthy animals.
"Unfortunately it's not going to allow us to eliminate all genetic diseases… One in a 100 of genetic diseases – single-gene defects – arise from mitochondrial DNA mutations, and these are the first category of disorders that we would be able to treat."
- Brian Bigger, a specialist in genetic therapy
The team has now used the same technique to create human embryos, with about half having abnormalities.

But they say some 20 per cent of the eggs did produce embryos that would have been suitable for transfer back into the mother.

So is science creating so-called designer babies? And should scientists be allowed to interfere with nature?

To discuss this on Inside Story with presenter Zami Zeidan are guests: Josephine Quintavalle, the director of Core-ethics, a public interest group focusing on the ethics of human reproduction; Laurie Zoloth, a professor in biotechs and medical humanity at the Feinberg School of Medicine at Northwestern University; and Brian Bigger, a senior research fellow at the University of Manchester and a specialist in genetic therapy who has also worked extensively on gene therapy and neurological disorders.
"Is this [gene therapy] the best way to do that, what other effects does this cloning technique have, and this is the kind of technique that challenges two very serious ethical bright lines that we've erected to regulate this kind of technology."
Laurie Zoloth, a biotechs professor

New gene-swapping technique:
  • A woman's egg cell contains thousands of what are called mitochondria, each with its own DNA.
  • And if they are defective they can be passed on from mother to child.
  • The egg also has a nucleus, which holds chromosomes. It is these that influence traits such as eye colour and height.
  • The new technique involves removing the nucleus from the mother's egg cell which has defective mitochondria and inserting it into a healthy donor egg cell.
  • A sperm cell is then injected to fertilise the egg, which is re-implanted into the mother.
Source Aljazera: http://www.aljazeera.com/programmes/insidestory/2012/10/2012102661938545777.html

اسلام اور ناموسِ رسالتؐ پر کروسیڈی حملے )Crusaders Attack again Islam & Prophet (pbuh

اسلام اور ناموسِ رسالتؐ پر کروسیڈی حملے ۔۔۔ اور اُمت مسلمہ کی ذمہ داری

پروفیسر خورشید احمد

 فردہو یا قوم، دونوں کے وجود کے دو پہلو ہیں: ایک جسمانی اور طبیعی اور دوسرا روحانی، اخلاقی، نظریاتی اور تہذیبی جس سے اس کی شناخت واضح ہوتی ہے۔ جس طرح نفس اور جسم پر ہروہ حملہ یا ضرب جو قانون سے ماوراہو، ایک جرم اور لائق تعزیر ہے، اسی طرح روحانی اور نظریاتی وجود اور شناخت پر حملہ ناقابلِ برداشت ہے اور اس پر جارحیت کے خلاف مزاحمت، ہر فرد اور قوم کا قانونی اور اخلاقی حق ہے۔ معاملہ ملک کے اندر ہو یا اس کا تعلق اقوامِ عالم سے ہو، انسانوں، معاشروں اور تہذیبوں کے درمیان امن و آشتی اور سلامتی و استحکام کا انحصار قانون اور ضابطوں کے احترام اور ان پر عمل اور ان کی نگرانی پر ہے۔ ان حدود کو پامال کرنے کا نتیجہ انتشار، تصادم اور فساد فی الارض کے سوا کچھ اور نہیں ہوسکتا۔
۱۱ستمبر ۲۰۱۲ء کو اسلام اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر جو حملہ امریکا کی کچھ شیطانی قوتوں نے یوٹیوب پر جاری ہونے والی ایک فلم کی شکل میں کیا اور جس سوچے سمجھے انداز میں پوری چابک دستی کے ساتھ مسلمانوں کے ایمان، نظریاتی وجود اور عزت و غیرت کو چیلنج کیا، اور پھر جس تحدی اور ڈھٹائی کے ساتھ اسے آزادیِ اظہار کے نام پر سرکاری تحفظ فراہم کیا گیا، اس نے فطری طور پر عالمِ اسلام میں ایک آگ سی لگا دی۔ امریکی حکومت، میڈیا، دانش وروں اور دوسری مغربی اقوام کے کرتادھرتا عناصر نے، خصوصیت سے فرانس کے میڈیا اور حکومت نے جو رویہ اختیار کیا، اس نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور مصر کے صدر کے استثنا کے ساتھ، تمام ہی مسلمان حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی اور بے عملی نے مسلمان عوام کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں چھوڑا کہ وہ اپنے ایمان اور ناموسِ رسالتؐ کے تحفظ کے لیے میدان میں اُتریں۔ یہ ان کا حق ہی نہیں، فرض تھا جسے انھوں نے اور ان کی دینی قیادت نے پورا کیا۔ یہ امر افسوس ناک ہے کہ کچھ مقامات پر اس ردعمل نے تشدد کا رُخ اختیار کرلیا جس کے نتیجے میں ۳۰سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ بدنما صورت بہت ہی محدود اور انگلیوں پر گنے جانے والے مقامات پر رُونما ہوئی ہے اور وہاں بھی مظاہرین کے بے قابو ہوجانے سے بھی کہیں زیادہ نقصان سرکاری اہل کاروں کے قوت کے استعمال اور تصادم کے نتیجے میں واقع ہوا ہے۔ لیبیا کے واقعے کے علاوہ کہیں بھی پہل مظاہرین نے نہیں کی حالانکہ مغربی میڈیا اور ان کے مقامی نام نہاد لبرل حاشیہ نشین اصل مسئلے سے توجہ کو ہٹاکر، تشدد یا بے اعتدالی کے معدودے چند واقعات کا ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ اُمت مسلمہ کی اپنی قیادت نے تشدد کی مذمت کی ہے اور احتجاج کو پُرامن اور جمہوری اور اخلاقی حدود میں رکھنے کی سختی سے تلقین کی ہے اور پوری دنیا کے مسلمانوں نے بحیثیت مجموعی ان آداب کا پورا پورا لحاظ رکھا ہے۔ بلاشبہہ ایک جان کا بھی ناحق جانا غلط اور ناقابلِ معافی ہے، لیکن اُمت مسلمہ کے دینی اور قانونی ردعمل کو مسلمانوں کے غصے (rage)اور انتقام (revenge)کا نام دے کر بحث کا رُخ بدلنا ایک شرم ناک کھیل ہے جس کا اسی طرح پردہ چاک کرنے کی ضرورت ہے، جس طرح اصل کروسیڈی اور صہیونی حملے کا مؤثر جواب اور مسئلے کے مستقل حل کے لیے منظم اور مؤثر کوشش ضروری ہے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ اس مسئلے کے تمام اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے، بگاڑ کے اصل اسباب کی نشان دہی کی جائے، اور حالات کو سدھارنے کے لیے جس حکمت عملی کو اختیار کرنا ضروری ہے اس کو صاف الفاظ میں بیان کیا جائے۔

ناموسِ رسالتؐ پر حملہ یا نئی تہذیبی جنگ
امریکی ریاست کیلی فورنیا کے جن قبطی، عیسائی شدت پسند اور اسرائیلی صہیونی شرپسندوں نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق ایک نہایت گھٹیا، مکروہ اور غلیظ فلم کے ذریعے اسلام اور اس کے پاک نبیؐ کی ذاتِ اقدس کو نشانہ بناکر پوری اُمت مسلمہ کے خلاف جس جارحیت کا ارتکاب کیا ہے، اس کے بنیادی حقائق ہرکس و ناکس کے سامنے آگئے ہیں، اس لیے ان کے اعادے کی ضرورت نہیں۔ نیز یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اسلام اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات کو سب و شتم، جھوٹ اور افترا اور خبث باطن اور زہرناک دشمنی پر مبنی خیالی الزامات اور اتہامات کا نشانہ بنانا مغربی اہلِ قلم، مشنری اداروں اور میڈیا کا شیوہ رہا ہے، اور اس کا اعتراف مشہور عیسائی مؤرخ ڈبلیو منٹگمری واٹ نے ان الفاظ میں کیا ہے:’’دنیا کے تمام عظیم انسانوں میں سے کسی کو بھی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے زیادہ بدنام نہیں کیا گیا‘‘۔
لیکن آج جس طرح، جس زبان میں اور جس تسلسل سے یہ جارحانہ کارروائیاں ہورہی ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ پھر اس پر مستزاد، میڈیا اور سوشل میڈیا کی نئی قوت کہ چشم زدن میں یہ آگ دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج مغربی میڈیا، دانش وروں کی اکثریت اور امریکا اور یورپی اقوام کی سیاسی قوت، سب اپنے اپنے انداز میں اس خطرناک کھیل میں شریک ہیں جس کی وجہ سے مسئلے کی جوہری نوعیت تبدیل ہوگئی ہے۔ آج امریکی دستور کی پہلی ترمیم جس کا تعلق مذہب اور ریاست کی علیحدگی اورآزادیِ راے اور اظہار کی آزادی سے متعلق ہے، اور اقوامِ متحدہ اور یورپی یونین کے بنیادی حقوق کے اعلامیے کا سہارا لے کر اسلام، پیغمبرؐاسلام اور اُمت مسلمہ کو مطعون کرنے اور ان کے خلاف نفرت اور انتقام کی آگ بھڑکانے اور ان کو صفحۂ ہستی سے مٹادینے کے عزائم اور منصوبوں کا پرچار ہی نہیں، ان پر دعوتِ عمل دینے کا جو کام ہورہا ہے اس کا نوٹس نہ لینا اور حالات کو بگڑنے سے بچانے کے لیے بروقت اقدام نہ کرنا ایک مجرنامہ غفلت ہوگی۔
علمی تنقید اور اور دلیل پر مبنی اختلافِ راے نہ کبھی محل نظر تھا اور نہ آج ہے۔ تہذیبوں کے تصادم کا جو غلغلہ مغربی اہلِ قلم نے برپا کیا، وہ بھی کسی نہ کسی طرح براشت کرلیا گیا۔ لیکن جس نظریاتی، تہذیبی اور سیاسی جنگ کو اب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مسلط کیا جارہا ہے، وہ ایک ایسا خطرہ ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ نائن الیون کے بعد امریکا اور یورپی اقوام کی عسکری قوت اور سیاسی معرکے کا اصل ہدف مسلم دنیا بن گئی ہے، اور عالمِ اسلام کے سیاسی، معاشی اور تہذیبی نقشے کو اپنے حسبِ خواہش تبدیل کرنے کا عمل بڑی چابک دستی سے کارفرما ہے۔ امریکی قیادت بڑی معصومیت سے کہہ رہی ہے کہ اس فلم سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، اور ہمیں کوئی شبہہ نہیں کہ بہت سے افراد ایسی مذموم اور قبیح حرکتوں کو ناپسند بھی کرتے ہوں گے، لیکن یہ کہنا کہ امریکی اور یورپی قیادت کا دامن اس پورے کھیل سے پاک ہے جو تسلسل کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے، کسی طرح بھی قابلِ یقین نہیں۔ نائن الیون کے معاً بعد جس جنگ کا آغاز جارج بش نے Crusadeکی تاریخی اصطلاح کو استعمال کر کے کیا تھا، وہ محض زبان کی لغزش (slip of the tongue) نہ تھی اور بعد کے واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ ع
ہیں کواکب کچھ ، نظر آتے ہیں کچھ
گوانتاناموبے میں بار بار قرآنِ پاک کی بے حُرمتی کی گئی ہے، افغانستان کے بگرام کے عسکری اڈے پر ۱۰۰سے زیادہ قرآنِ پاک نذرِ آتش کیے گئے ہیں، امریکا کے اعلیٰ فوجی ادارے جوائنٹ فورسز اسٹاف کالج میں اسلام کے خلاف لیکچرز نصاب میں شامل کیے گئے، جن میں اسلامی دنیا کو دشمن قرار دیتے ہوئے مکہ اور مدینہ کو ایٹم بم سے اُڑا دینے تک کا پیغام دیا گیا۔ اسی طرح ڈینش رسالے میں ہتک آمیز خاکے چھاپے گئے۔ امریکی پادری ٹیری جونز نے قرآنِ پاک جلانے کی ملک گیر مہم چلائی ، فرانس کے رسالے چارلی ہیس فور میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے تضحیک آمیز خاکے شائع ہوئے۔ ہالینڈ میں پارلیمنٹ کے رکن نے اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کی، ناروے میں اسلام دشمنی کے نام پر خود اپنے ۷۰سے زیادہ نوجوانوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا ___ یہ سب غیرمربوط واقعات نہیں ایک پوری اسکیم کا حصہ نظر آتے ہیں اور اُمت مسلمہ کا ضمیر اس خطرے کو بھانپ رہا ہے، اور حکمرانوں کا رنگ ڈھنگ جو بھی ہو ، عوام امریکا اور مغربی اقوام پر بھروسا نہیں کرتے اور اپنے دفاع کے لیے مضطرب ہیں۔ اب یہ منظرنامہ اتنا واضح ہوتا جا رہا ہے کہ خود مغرب کے اہلِ نظر کا ایک طبقہ اس خطرناک کھیل پر اپنی پریشانی کا اظہارکر رہا ہے اور اسے خود مغربی اقوام اور خصوصیت سے عوام کے مفاد کے منافی محسوس کر رہا ہے۔

آزادیِ راے کی آڑ میں مذموم مقاصد
سام بیسائل کی ’مسلمانوں کی معصومیت‘ (Innocence of Muslims)کے نام پر امریکی اور یہودی سرمایے سے بنائی ہوئی یہ شیطانی فلم امریکی سفیر رچرڈ گلینڈ کے الفاظ میں: ’’ایک شخص کا ذاتی فعل ہے، یہ سارے امریکا کی راے نہیں‘‘ مگر یہ راے تسلیم کرنا عقل اور تاریخ دونوں کے ساتھ مذاق ہوگا۔ فلم کتنی قبیح اور اشتعال انگیز ہے اس کے بارے میں صرف ایک پاکستانی صحافی جناب حامدمیر کے یہ الفاظ پڑھ لینا کافی ہیں کہ:
۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو نیویارک اور القاعدہ کے حملوں سے ۳ہزار امریکی مارے گئے تھے لیکن ۱۱ستمبر ۲۰۱۲ء کو یوٹیوب پر جاری کی جانے والی اس فلم نے کروڑوں مسلمانوں کی روح کو زخمی کیا۔ میں اس فلم کو چندمنٹ سے زیادہ نہیں دیکھ سکا۔ اس خوف ناک فلم کی تفصیل کو بیان کرنا بھی میرے لیے بہت تکلیف دہ ہے۔ بس یہ کہوں گا کہ اس فلم کے چند مناظر دیکھ کر سام بیسائل کے مقابلے پر اسامہ بن لادن بہت چھوٹا انتہاپسند محسوس ہوا۔ یہ اعزاز اب امریکا کے پاس ہے کہ اس صدی کا سب سے بڑا دہشت گرد سام بیسائل اپنی انتہائی گندی اور بدبودار ذہنیت کے ساتھ صدراوباما کی پناہ میں ہے۔(روزنامہ جنگ، ۱۷ستمبر ۲۰۱۲ء)
امریکا ، مغربی حکمران اور میڈیا ’آزادیِ اظہار راے‘ کے نام پر اس صہیونی اور صلیبی جنگ کے کمانڈروں کا پشتی بان ہے اور مسلمانوں کو درس دے رہا ہے کہ’’ معاملہ آزادی کے بارے میں دوتصورات کا ہے‘‘ (ملاحظہ ہو: Behind Clashes, Two Versions of Freedomانٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون، ۱۸ستمبر ۲۰۱۲ء)۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آزادی اور اس کے تصورات سے اس معاملے کا دُور کا بھی واسطہ نہیں۔ بات تہذیبوں کے تصادم سے آگے بڑھ کر امریکا اوریورپی اقوام کے اسلام اور اسلامی دنیا کے بارے میں عزائم کی ہے، اور جو کردار یہ فلم ساز، خاکہ نگار، صحافی، سیاسی اداکار انجام دے رہے ہیں وہ امریکا اور یورپ کی سامراجی قوتوں کے نقشۂ جنگ میں اپنے مقام پر بالکل ٹھیک فِٹ ہوتا ہے اور اب اس کا اعتراف خود ان کے درمیان سے شاہد منھم سے بھی آنے لگا ہے۔
دی گارڈین کا کالم نگار سیماس ملن اپنے ۱۸ستمبر ۲۰۱۲ء کے مضمون میں (جس کا عنوان بھی چونکا دینے والاہے، یعنی: ’’تعجب کی بات صرف یہ ہے کہ شرق اوسط میں اور زیادہ پُرتشدد مظاہرے کیوں نہیں ہوئے‘‘)لکھتا ہے:
رُشدی کے معاملے اور ڈنمارک سے شائع ہونے والے متنازعہ خاکوں کے تناظر میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی توہین عام طور پر مسلمان اپنے اجتماعی تشخص پر حملہ سمجھتے ہیں جیساکہ نعروں اور اہداف سے واضح ہے۔ جس چیز نے احتجاج کو بھڑکایا وہ یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کو پہنچنے والا زخم گویا کہ ایک غرور سے بھری طاقت نے لگایا ہے جس نے کئی عشروں سے عرب اور مسلم دنیا پر حملہ کیا ہے، انھیں غلام بنایا ہے، اور ان کی تذلیل کی ہے۔
ایک اور دانش ور جیمز روزلنگٹن جو کیمبرج یونی ورسٹی میں تاریخ میں پی ایچ ڈی کا محقق ہے، الجزیرہ میں اپنے مضمون میں کہتا ہے:
بیش تر لوگ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی مسلم دشمن ویڈیو امریکا کے لذت پرست کلچر اور اسرائیل کے لیے امریکی حمایت کا فطری نتیجہ ہے۔ مختصراً یہ کہ بہت سے مسلمانوں کے لیے یوٹیوب کی کلِپ ان کی زندگیوں اور کلچر پر امریکا کے بگاڑ پیدا کرنے والے اثرات کی علامت ہے۔
Counter Punchجو ایک مشہور آن لائن رسالہ ہے اس کے ۱۸ستمبر ۲۰۱۲ء کے شمارے میں جیف سپیرو اپنے مضمون Islamophobia, Left and Rightمیں لکھتا ہے:
لیکن خود فلم کے بارے میں کیا کہا جائے؟ غیرپیشہ ورانہ فلم کاری کا اتنا پھٹیچر نمونہ ایسا شعلۂ جوالہ (فلیش پوائنٹ) کیوں بن گیا؟ یہ فلم ایک ایسے وقت میں تیار کی گئی ہے، جب کہ یورپ اور امریکا میں دائیں بازو کے انتہاپسندوں نے ایک ایسا اسلام دشمن نظریہ اپنا لیا ہے جو تقریباً بالکل ٹھیک ٹھیک روایتی یہود مخالف کلیدی طریقوں کو دُہراتا ہے۔
بات صرف اس فضا کی نہیں، اس فضا کو بنانے، اسے تقویت دینے، اسے اپنے سیاسی اور عسکری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی ہے۔ ہدف اُمت مسلمہ کی شناخت اور اس کا سیاسی اور تہذیبی کردار ہے۔ مسئلہ دینی، اخلاقی اور تہذیبی ہے اور بلاشبہہ ایک خاص سیاسی اور geo-strategicتناظر نے اسے اور بھی گمبھیر کردیا ہے۔ بات اب صرف ان افراد تک محدود نہیں جو اس میں کلیدی کردار ادا کررہے ہیں، اصل مسئلہ ان قوتوں کا ہے جو ان کو پناہ دیے ہوئے ہیں اور جن کی پالیسیاں، جن کے تضادات اور دوعملیاں اور جن کے سیاسی اور عسکری مفادات ہی نے ان کو یہ کھیل کھیلنے کا موقع دیا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اظہار راے کی آزادی اور امریکا اور یورپی ممالک کے جن دستوری حقوق کے نام پر اسلام اور پیغمبرؐاسلام اور مسلم اُمہ پر جو وَار کیے جارہے ہیں ان کی حقیقت کو بھی اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔

امریکی دستور اور آزادیِ راے کے دعوے کی حقیقت
امریکی صدر، وزیرخارجہ، سفرا، دانش ور اور صحافی ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں وہ ہے امریکی دستور کی پہلی ترمیم۔ نیز اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اورانسانی حقوق کا یورپی کنونشن (European Convention on Human Rights) ہیں۔ دعویٰ ہے کہ ان دستاویزات کی روشنی میں مغربی تہذیب اور امریکا اور یورپ کے سیاسی اور قانونی نظام کی بنیاد فرد کی آزادی ہے اور یہ وہ بنیادی قدر ہے جس پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا، خواہ اس کے نتائج کچھ بھی ہوں اور خواہ اس کی زد دنیا کے دوسرے مذاہب، اقوام اور انسانوں کے ایمان، عزت، تہذیب، اقدار اور ثقافتی اور دینی وجود اور شناخت پر کچھ بھی پڑے اور کتنے ہی انسانوں کی دل آزاری اور ان کی مقتدر شخصیات کی بے حُرمتی اور تضحیک ہو۔
ہم بڑے ادب سے عرض کریں گے کہ آزادی بلاشبہہ ایک بنیادی انسانی قدر ہے اور ہم اس کی اہمیت اور قدردانی میں کسی سے پیچھے نہیں، لیکن آزادی تو ممکن ہی کسی ضابطۂ کار کے اندر ہوتی ہے ورنہ مادرپدر آزادی جلد انارکی بن جاتی ہے۔
جرمن مفکر ایمانویل کانٹ نے بڑے دل نشیں انداز میں اس عقدہ کو یہ کہہ کر حل کردیا تھا کہ ’’مجھے ہاتھ ہلانے کی آزادی ہے لیکن میرے ہاتھ کی جولانیاں وہاں ختم ہوجاتی ہیں جہاں سے کسی دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے‘‘۔ آزادی اسی وقت خیر کا ذریعہ ہوگی جب وہ دوسروں کی آزادی اور حقوق پر دست اندازی کا ذریعہ نہ بنے۔ اظہار راے کی آزادی کے معنٰی نفرت، تضحیک اور تصادم کے پرچار کی آزادی نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کو باقی تمام اقدار سے الگ کرکے نہیں لیا جاسکتا۔ اس کا واضح ترین ثبوت یہ ہے کہ ہرشخص آزاد ہے لیکن اسے یہ آزادی حاصل نہیں کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے کسی دوسرے شخص کا غلام بن جائے۔ حتیٰ کہ دنیا کے بیش تر قوانین میں آج بھی خودکشی ایک جرم ہے، اس لیے کہ آپ خود اپنی جان لینے کے لیے آزاد نہیں ہیں۔ نہ کوئی دوسرا بلاحق کے آپ کی جان لے سکتا ہے اور نہ آپ خود اپنی جان کو تلف کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
مغرب کے اربابِ اقتدار اور اہلِ دانش اور خود ہمارے ممالک میں ان کے نام نہاد لبرل پیروکار امریکی دستور کی پہلی ترمیم کا راگ الاپ رہے ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ امریکی دستور کی بنیاد جیفرسن کا یہ مقولہ ہے کہ تمام انسان برابر ہیں اور قانون اور دستور کے تحت سب کا مساوی مقام ہے۔ امریکی دستور کی پہلی ترمیم اپنی جگہ اہم ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ:
کانگرس کوئی ایسا قانون نہیں بنائے گی جو کسی مخصوص مذہب کا احترام کرتا ہو، یا ان کے آزادانہ استعمال کو منع کرتا ہو، یا آزادیِ اظہار میں کمی کرتا ہو، یا راے کی آزادی، پریس کی آزادی، عوام کے جمع ہونے کا حق اور شکایت پیدا ہونے پر حکومت کے پاس درخواست دینے کے حق سے روکتا ہو۔
اس میں ترمیم نمبر۴بھی ہے، جو کہتی ہے:
عوام کا اپنی ذات کی حد تک تحفظ کا حق، مکانات، کاغذات اور سامان کے تحفظ کے حق، اور غیرمعقول تلاشیوں اور ضبطیوں کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔کوئی وارنٹ جاری نہیں کیا جائے گا جسے کسی ممکنہ جواز کی تائید حاصل نہ ہو، اور جس جگہ کی تلاش مقصود ہو اور چیزیں قبضے میں لینا ہوں ان کو وضاحت سے بیان نہ کیا گیا ہو۔
اسی طرح ترمیم ۵ہے جس کے ذریعے جان، مال اور آزادی کے لیے due process of lawکے بغیر محرومی کوممنوع کیا گیا ہے۔ ترمیم نمبر۸ہے جس میں excessive(بہت زیادہ، ظالمانہ) زرضمانت، جرمانہ اور سزا کو منع کیا گیا ہے اور یہ اصول ترمیم نمبر۹میں تسلیم کرلیا گیا ہے کہ :
دستور میں کسی خاص حق کے اندراج کے یہ معنی نہیں لیے جانے چاہییں کہ عوام کو حاصل دوسرے حقوق سے انھیں محروم کیا جائے یا ان کی تحقیر کی جائے۔
سوال یہ ہے کہ پہلی ترمیم جہاں اظہارِ راے کی آزادی دیتی ہے یا ریاست کی طرف سے مذہب کو مسلط کرنے کا دروازہ بند کرتی ہے وہیں مذہب کی آزادی بھی دیتی ہے۔ نیز اگر دستور میں دیے ہوئے باقی تمام حقوق کو قانون اور اخلاق کا پابند کیا گیا ہے تو اظہارِ راے کی آزادی کو اس سے آزاد اور مبرا کیسے کیا جاسکتا ہے۔ امریکا کی سپریم کورٹ نے ۱۹۴۲ء کے اپنے ایک اہم فیصلے میں اس امر کو واضح کردیا ہے مگر امریکی حکمران اور دانش ور اس کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتے:
تقریروں کی کچھ ایسی متعین اور محدود قسمیں ہیں جن کو روکنے یا سزا دینے پر کوئی دستوری مسئلہ کبھی نہیں اُٹھایا گیا۔ اس میں فحش اور ناشائستہ، ملحدانہ، جھوٹے الزام لگانے والے یا ایسے توہین آمیز اور اشتعال انگیز الفاظ جو اپنی ادایگی سے ہی امن کا فوری بگاڑ پیدا کریں شامل ہیں۔ اس بات کا بخوبی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ اس طرح کے الفاظ کسی بھی نقطۂ نظر کی وضاحت کا لازمی حصہ نہیں ہوتے اور سچائی تک پہنچنے کے لیے اتنی کم سماجی قدروقیمت رکھتے ہیں کہ نظم اور اخلاقیات میں کوئی بھی سماجی مفاد جو ان سے پہنچ سکتا ہو، واضح طور پر بے وزن ہوجاتا ہے۔

آزادیِ راے اور مغرب کا دھرا معیار
الجزیرہ میں ۱۸ستمبر ۲۰۱۲ء کو ایرک بلیخ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی عوام اور اہم ادارے ایسی قانون سازی کے حق میں ہیں جس کے نتیجے کے طور پر نفرت پھیلانے والے خیالات کے اظہار کا دروازہ بند کیا جاسکے، جیساکہ کتاب قانون کی حد تک یورپ کے کئی ممالک بشمول ڈنمارک میں ایسے قوانین موجود ہیں۔ گو وہ بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کے طوفان کو نہیں روک سکے۔
پروفیسر ایرک بلیخ جو مڈل برے کالج میں علمِ سیاسیات کا پروفیسر ہے، کہتا ہے کہ امریکی راے عامہ کے تمام سروے جو ۱۹۹۷ء سے ۲۰۰۸ء تک ہوئے ہیں ظاہر کرتے ہیں کہ امریکی عوام کی اکثریت اس کے حق میں ہے کہ ایسی آرا کے پبلک اظہار پر پابندی ہونی چاہیے جو نفرت پھیلانے اور خصوصیت سے دوسری نسل کے لوگوں کے خلاف زہر اُگلنے والے ہوں۔
امریکا اور یورپی اقوام کے دوغلے پن کا سب سے بڑا ثبوت صہیونیت، اسرائیلی اور خصوصیت سے جرمنی میں ہٹلر کے دور میں یہودیوں پر توڑے جانے والے مظالم جن کو ہولوکاسٹ کہا جاتا ہے ، کے بارے میں قانون سازی اور عملاً anti-Semitism(یہود مخالف)کے نام پر اسرائیل، یہودیت، صہیونیت کے بارے میں کسی بھی مخالف راے کا اظہار یا ہولوکاسٹ کے انکار، حتیٰ کہ ان کے بارے میں صہیونیوں کے پروپیگنڈے کے بارے میں کسی بھی شک و شبہے تک کا اظہار قانوناً جرم بنا دیا گیا ہے۔ دسیوں افراد کو ان قوانین کے تحت سزائیں دی گئی ہیں، اس سے اظہارِراے کی آزادی کے مقدس اصول پر کوئی حرف نہیں آیا۔
رابرٹ فسک نے لندن کے اخبار انڈی پنڈنٹ کے ۱۳ستمبر ۲۰۱۲ء کے شمارے میں نیوزی لینڈ کے ایک ایڈیٹر سے اپنی گفتگو نقل کی ہے، جس نے بڑے فخر سے دعویٰ کیا کہ اس نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو نشانہ بنانے والے ڈینش کارٹون اپنے اخبار میں شائع کیے :
جب میں نے اس سے یہ پوچھا کہ جب اسرائیل لبنان پر دوبارہ حملہ کرے گا تو کیا تم ایک ایسا کارٹون شائع کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہو جس میں ایک ربی (rabbi) کے سر میں بم لگا ہو، تو اس نے مجھ سے فوراً اتفاق کیا کہ یہ یہود مخالف ہوگا۔
امریکی دستور کی پہلی ترمیم کی دہائی دینے والوں اور آزادیِ اظہارِ راے کا دعویٰ کرنے والوں کا یہی وہ تضاد ہے جس نے ان کی اصول پرستی، آزادی نوازی اور جمہوریت پسندی کا پول کھول دیا ہے اور اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ان کے خبث باطن کو واشگاف کردیا ہے۔
یورپ کے ۳۴ممالک میں anti-Semitismاور ہولوکاسٹ کے خلاف قوانین موجود ہیں جن کے تحت اس بارے میں ہر نوعیت کا منفی اظہارِ راے جرم ہے جس پر قید اور جرمانے کی سزا دی جاسکتی ہے۔ امریکا میں بھی ایک دوسرے انداز میں قانون تک موجود ہے جسے: Global Anti-Semitism Review Act of 2004کہا جاتا ہے اور عملاً جس کے نتیجے میں یہودی مذہب تک کو تحفظ حاصل ہوگیا ہے۔ اگر صہیونی لابی کے زیراثریہ قانون سازی ہوسکتی ہے تو ۶ء۱ارب مسلمانوں اور ان کی ۵۷آزاد مملکتوں کے جائز دینی اور تہذیبی حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی قانون سازی کیوں نہیں کی جاسکتی؟
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے The Universal Declaration of Human Rightsکی دفعہ ۲۹میں قانون کے تحت معقول پابندیوں کا ان الفاظ میں واضح ذکر موجود ہے:
اپنے حقوق اور آزادیوں کے استعمال میں ہرشخص ایسی حدود کا پابند ہوگا جن کا تعین قانون محض اس مقصد سے کرے گا کہ دوسروں کے حقوق اور آزادی کا تحفظ اور احترام ہو، اور اخلاقیات اور امن و امان اورجمہوری معاشرے میں عوامی بہبود کے منصفانہ تقاضوں کو پورا کیا جاسکے۔
اسی طرح European Convention on Human Rightsکی دفعہ ۱۰میں اظہارِ راے کی آزادی اور اس کی حدود دونوں کا واضح الفاظ میں اظہار کیا گیا ہے:
۱۔ ہرشخص کو آزادیِ اظہارکا حق حاصل ہے۔ اس میں راے قائم کرنے کی آزادی، سرکاری مقتدرہ کی مداخلت یا سرحدات سے بے نیاز ہوکر معلومات اور خیالات کو وصول کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی آزادی شامل ہے۔ یہ دفعہ حکومت کو اس بات سے نہیں روکے گی کہ براڈ کاسٹنگ، نشرواشاعت، ٹیلی ویژن اور سینما کے لیے لائسنس جاری کرے۔
۲۔ ان آزادیوں کے استعمال میں، چونکہ ان کے ساتھ فرائض اور ذمہ داریاں ہیں، ایسی شرائط، پابندیوں یا جرمانوں کی پابندی ہوگی جو قانون نے طے کیے ہوں اور کسی جمہوری معاشرے میں ضروری ہوں۔ ملک کی سلامتی، علاقائی یک جہتی، عوامی تحفظ، امن و امان کے تحفظ، جرائم کی روک تھام اور صحت عامہ اور اخلاق کے تحفظ، دوسروں کی شہرت اور حقوق کا تحفظ، اور ایسی معلومات کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے جو اعتماد اور نیک نیتی سے دی گئی ہوں، اور عدلیہ کی بالادستی اور عدالت کی غیر جانب داری کو برقرار رکھ سکیں۔ (آرٹیکل ۱۰)

آزادیِ راے: حددو کے تعین کی ضرورت
امریکا سے آنے والی فلم اور اس پر عالمِ اسلام کے ردعمل کی روشنی میں اس وقت پوری مغربی دنیا کے سوچنے سمجھنے والے لوگوں کی ایک تعداد میں یہ احساس پیدا ہورہا ہے کہ آزادیِ اظہارراے کی حدود کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ آزادی اور اس کا ذمہ دارانہ استعمال ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں، جنھیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ سوال یہ ہے کہ مسلمان ملکوں کی قیادت ان حالات میں کیا کردار ادا کرتی ہے اور جو قربانیاں مسلمان عوام دے رہے ہیں، کیا ان کو کسی مثبت پیش رفت کا ذریعہ بنانے میں کامیاب ہوسکتی ہے؟
انڈی پنڈنٹ اخبار نے اپنے حالیہ ادارتی کالم میں اس ضرورت کا اعتراف کیا ہے۔ فرانسیسی اخبار Charlie Heboمیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکے شائع کرنے کے بارے میں انڈی پنڈنٹ کہتا ہے:
ایک آزاد پریس کا دفاع کرنے کی اس کی خواہش قابلِ تعریف ہوسکتی ہے لیکن اس نتیجے سے بچنا ناممکن ہے کہ اس کا رویہ (یعنی ایسے خاکوں کی اشاعت)غیرذمہ دارانہ ہے۔ اس اقدام سے لازماً دوسرے مشتعل ہوں گے۔ اس سے بھی زیادہ قابلِ تشویش بات یہ ہے کہ یہ لازماً تشدد کو اُبھارے گا اور اموات واقع ہوں گی۔ سنسرشپ کی مذمت کی جانی چاہیے لیکن دوسروں کے گہرے عقائد کا لحاظ نہ کرنا بھی قابلِ مذمت ہے۔ اخبار کے ایڈیٹر کو اپنا رسالہ فروخت کرنے سے پہلے ان خاکوں کو ہٹا لینا چاہیے اس سے قبل کہ دیر ہوجائے۔
لندن کے اخبار دی آبزوَر ۲۳ستمبر ۲۰۱۲ء کے شمارے میں Henry Porterاپنے مضمون میں اس امر کا اعتراف کرتا ہے کہ: ’’ہمارا یہ فریضہ ہے کہ ہم آزادیِ راے کو ذمہ داری سے استعمال کریں۔ یورپ اور امریکا میں مذہبی اور نسلی جذبات اُبھارنے کے خلاف قوانین موجود ہیں جن کو فلم اور کارٹونوں نے توڑا ہوگا‘‘۔
نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والا مضمون Free Speech Issue Bedevils Web Giants(آزادیِ راے کے مسئلے نے ویب کے بڑوں کو چکرا دیا ہے)میں یہ چبھتے ہوئے سوالات اُٹھائے گئے ہیں کہ اگر گوگل کے خیال میں اس بے ہودہ فلم کو یوٹیوب پر ڈالنا اظہارِ راے کی آزادی کا حصہ ہے تو پھر اسی گوگل نے لیبیا اور مصر کے لیے اس کی اشاعت کیوں روک دی ہے۔ اسی طرح انڈیا اور انڈونیشیا کے لیے بھی اسے روکا گیا ہے۔ اگر ان ممالک کے لیے روکا جاسکتا ہے تو باقی دنیا کے لیے کیا چیز مانع ہے؟ کیا اسی کا نام اصول پرستی ہے؟
بات صرف اس حد تک دوغلے پن اور دھاندلی کی نہیں۔ Counter Punchکے ایک مضمون نگار نے ۱۴ستمبر ۲۰۱۲ء کی اشاعت میں گوگل کے بارے میں ناقابلِ انکار شواہد کی بنیاد پر دعویٰ کیا ہے کہ Jewish Pressکی یکم اگست ۲۰۱۲ء کی اشاعت کے مطابق گوگل نے ایک نہیں ۱۷۱۰ویڈیو جن میں خاصی بڑی تعداد کا تعلق ہولوکاسٹ سے تھا ۲۴گھنٹے کے اندر اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دیے۔ اسی طرح جولائی ۲۰۱۱ء میں فیس بک نے اسرائیل کے کہنے پر فلسطینی اداروں کے درجنوں اکاؤنٹ بند کردیے حالانکہ ان کے مندرجات کسی قانون سے متصادم نہ تھے۔ یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ فرانس کی حکومت نے مشہور مصنف اور نام وَر فلسفی روجر گارودی کو اسرائیل کے بارے میں ایک کتاب لکھنے پر قید کی سز دی تھی اور آسٹریا میں ۱۹۸۹ء میں انگریز مؤرخ ڈیوڈ ارونگ کو ہولوکاسٹ کے بارے میں اپنی تحقیق شائع کرنے پر تین سال جیل کی سزا بھگتنا پڑی تھی۔
اس وقت جو احتجاج پوری دنیا میں ہوا ہے اس سے مغربی اخبارات میں پہلی بار یہ آواز اُٹھنا شروع ہوئی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جو امتیازی سلوک کیا جارہا ہے، اور آزادیِ اظہار راے کے نام پر کیا جارہا ہے، اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ یہ ہے وہ وقت کہ جب مسلم اُمہ کی سیاسی قیادت اپنی ذہنی غلامی اور سیاسی محکومی کے شکنجے سے نکلے اور اُمت کے اور اپنے دین کے حقوق کی پاس داری کے لیے مؤثر اور متحدہ اقدام کرے۔
۲۳ستمبر ۲۰۱۲ء کے دی آبزوَر نے ’مسلم غصہ اور برہمی‘ کے عنوان سے اپنے اداریے کا اختتام ان الفاظ پر کیا ہے کہ خود مغرب کو اپنے رویے پر نظرثانی کرنی چاہیے تاکہ تصادم کے بجاے تعاون کا کوئی راستہ نکل سکے:
اس لیے کہ اسلامی دنیا کو بالغ نظری سے ہرسطح پر سمجھنے کا متبادل یہ ہے کہ مغرب عالمی آبادی کے ایک بڑے حصے کو صرف دشمن کی نظر سے دیکھے۔ بجاے اس کے ان اختلافات اور سطحات اور دائروں کا احساس کرے جہاں گفتگو اور رضامندی ممکن ہے۔ یہی وہ کانٹے کی بات ہے جو لامحالہ تنازع اور تصادم کی بنیاد ہے۔
مسئلہ کسی خوش فہمی کا نہیں۔ بات اصل میں یہ ہے کہ اُمت مسلمہ اور اس کی قیادت اپنے مفادات کا صحیح اِدراک کرے اور اپنے مقاصد اور اہداف کو حاصل کرنے کے لیے صحیح حکمت عملی اختیار کرے تو نئے راستے استوار ہوسکتے ہیں۔

اُمت مسلمہ کے لیے حکمت عملی
ہم ایک بار پھر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ امریکا اور مغربی اقوام اور مقتدر حلقوں کا رویہ معاندانہ ہے اور ان کے کھیل کو سمجھ کر اپنے مقاصد اور اہداف کے حصول کے لیے حکمت عملی بنانا وقت کی ضرورت ہے۔ اسلام اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر جو وار کیے جارہے ہیں ان پر مؤثر اور بروقت احتجاج اور اپنی اصولی پوزیشن کو جرأت کے ساتھ پیش کرنا اولین ضرورت ہے۔ ایسے حالات میں قرآن نہ فرار اور مداہنت کو گوارا کرتا ہے اور نہ عدل اور توازن کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے اور انتقام میں حدود کو پامال کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت، ان کی اطاعت اور ان سے وفاداری اسلام کی اساس اور مسلمان کی شناخت ہے اور ناموسِ رسولؐ کی حفاظت ہر مسلمان کا تقاضاے ایمان ہے۔ یہ رشتہ ایمان کا، اطاعت کا اور محبت کا رشتہ ہے۔ آپؐ رحمت للعالمین تھے اور ہرمسلمان کے لیے فرداً فرداً اور پوری اُمت کے لیے نمونہ ہیں (لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ، الاحزاب ۳۳:۲۱)۔ اتباعِ رسولؐ ہی اللہ سے محبت کا تقاضا ہے (قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌoاٰلِ عمرٰن ۳:۳۱)، اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے لیے ان کی اپنی جان سے بھی زیادہ محترم اور مقدم ہیں (اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ، الاحزاب ۳۳:۶)۔قرآن پاک میں صاف ارشاد ہے کہ ’’ہم نے اللہ کے رسولؐ کو شہادت دینے والا، بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بناکر بھیجا ہے تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لاؤ اور اس کا (یعنی رسولؐ کا) ساتھ دو۔ اس کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے رہو (اِِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا oلِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ ط وَتُسَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا oالفتح ۴۸:۸۔۹)۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے صاف الفاظ میں بتادیا ہے کہ ’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کو اذیت دیتے ہیں، ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ نے لعنت فرمائی ہے اور ان کے لیے رُسواکن عذاب مہیا کردیا گیا ہے (اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّ لَھُمْ عَذَابًا مُّھِیْنًاoالاحزاب ۳۳:۵۷)۔
ان آیات کی روشنی میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جو تعلق امت مسلمہ کا قائم ہوا ہے اس کا تقاضا ہے کہ آپؐ کی اہانت کو کسی صورت میں بھی برداشت نہ کیا جائے اور ہر وہ اقدام کیا جائے جس سے آپؐ کی عزت قائم و دائم ہو۔ ان حالات میں جب اسلام اور مسلمانوں سے زیادتی کی جارہی ہو تو مسلمانوں کا رویہ انصاف اور حق پر مبنی مزاحمت پر مبنی ہوتا ہے۔ ہدایت ربانی ہے کہ:
اور جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو اس کا مقابلہ کرتے ہیں۔ برائی کا بدلہ ویسی ہی بُرائی ہے، پھر جو کوئی معاف کردے اور اصلاح کرے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔اور جو لوگ ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیں ان کو ملامت نہیں کی جاسکتی، ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔(الشورٰی ۴۲:۳۹۔۴۲)
ہمیں یہ اصولی ہدایت بھی دی گئی ہے کہ: ذٰلِکَ وَ مَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوْقِبَ بِہٖ ثُمَّ بُغِیَ عَلَیْہِ لَیَنْصُرَنَّہُ اللّٰہُ ط اِنَّ اللّٰہَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌo(الحج ۲۲:۶۰)، ’’یہ تو ہے ان کا انجام۔ اور جو کوئی بدلہ لے، ویسا ہی جیسا اس کے ساتھ کیا گیا اور پھر اس پر زیادتی بھی کی گئی ہو، تو اللہ اس کی مدد ضرور کرے گا۔ اللہ معاف کرنے ولا اور درگزر کرنے والا ہے‘‘۔ اور ساتھ ہی یہ ہدایت بھی بہت واضح الفاظ میں دے دی ہے کہ اصل اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ برائی کو برائی سے بدلنے کے بجاے اسے نیکی، خیر اور حسن سے بدلنے کی سعی کی جائے، تاکہ اللہ کی زمین برائی سے پاک ہو اور خیر اور حسنات سے معمور ہوسکے۔ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ السَّیِّءَۃَ ط نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَo(المومنون ۲۳:۹۶)،’’اے نبیؐ، برائی کو اس طریقے سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ جو کچھ باتیں وہ تم پر بناتے ہیں وہ ہمیں خوب معلوم ہے‘‘۔ نیز ارشاد ربانی ہے کہ: وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلاَ السَّیِّءَۃُ ط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌٌَ o(حم السجدہ ۴۱:۳۴)، ’’اور اے نبیؐ، نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو، تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے‘‘۔
مختصراً یہ ہے وہ ہدایتِ ربانی جس کی روشنی میں آج مسلم اُمت کو آج کے حالات میں اپنی حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف ہمیں ہر مداہنت سے اپنے دامن کو بچانا ہے اور پوری دیانت سے دین اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام اور آپؐ کی عزت و شخصیت کا دفاع کرنا ہے تو دوسری طرف اپنے مخالفین کے مقابلے کے لیے وہ طریقے اختیار کرنا ہیں جن سے بالآخر خیر رُونما ہو اور دنیا ان مقاصد کی طرف بڑھ سکے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلوب ہیں۔
بات بہت واضح ہے۔ جو کچھ آج ہورہا ہے وہ نہ صرف غلط اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کھلی کھلی جارحیت ہے بلکہ اس کے پیچھے جو مقاصد ہیں اور جو جو قوتیں پشت پناہی کررہی ہیں ان کا اِدراک اور توڑ دونوں ضروری ہیں۔ امریکی حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کا کوئی ہاتھ اس کے پیچھے نہیں ہے، ناقابلِ یقین ہے۔ امریکی ریاست اور سول سوسائٹی بشمول میڈیا ڈھکے اور چھپے کردار اداکررہے ہیں۔ آزادیِ اظہار کے نام پر ان قوتوں کو تحفظ دینا اس کی کھلی مثال ہے۔معاملہ محض چندسرپھرے انتہاپسندوں اور مذہبی جنونیوں کا نہیں، اس پردہ زنگاری کے پیچھے بہت سے کردار ہیں جن کو سمجھنا ضروری ہے۔ بلاشبہہ ہرواقعہ افسوس ناک، دل خراش اور مناسب ردعمل کا متقاضی ہے اور اس سلسلے میں اُمت مسلمہ اور اس کی قیادت کا فرض ہے کہ بروقت اس کا نوٹس لے اور مناسب اور مؤثر ردعمل کا اظہار کرے لیکن جیساکہ ہم نے عرض کیا اصل مسئلہ ان واقعات کے پیچھے جو ذہن (mind-set) ، جو پالیسیاں، جو خطرناک عزائم اور دیرپا اور اسٹرے ٹیجک منصوبے اصل کارفرما قوت ہیں ان کا مقابلہ اس سے بھی کچھ زیادہ ضروری ہے۔
lحکمت عملی کے تین اہم پہلو:اس سلسلے میں جو حکمت عملی بنائی جائے اس کے کم از کم تین پہلو ایسے ہیں جن میں سے ہرایک اہم ہے اور ہر ایک کے لیے ضروری اقدام اُمت مسلمہ اور اس کی قیادت کی ذمہ داری ہے:
۞اوّل: اسلام کی دعوت کو اس کی اصل شکل میں پیش کرنے کا اہتمام اور کم از کم مسلم ممالک میں اسلام کی حقیقی تعلیمات کے مطابق ایسے معاشرے اور ریاست کا قیام جو اس پیغام کا صحیح نمونہ اور علَم بردار ہو۔ اسلام کے خلاف جو طوفان برپا کیا ہوا ہے اس کا جواب بھی اسلام کی صحیح دعوت کو پہنچانے میں ہے۔ ہرمخالفت دعوت کے لیے ایک تاریخی موقع بھی فراہم کرتی ہے تاکہ جو بات جھوٹ اور دھوکے پر مبنی ہے اس کا پردہ چاک کیا جاسکے اور حقیقت اپنے اصل رنگ میں سب کے سامنے آجائے۔
۞دوم: سیاسی، سفارتی اور قانونی سطح پر ایسے انتظامات کا اہتمام کرنا، جس سے اللہ اور اس کے رسولوں کی توہین کا یہ سلسلہ ختم ہوسکے اور آزادیِ اظہار کا استعمال ذمہ داری کے ساتھ اور ان آداب کے فریم ورک میں ہوسکے جو مذاہب اور تہذیبوں کے درمیان ڈائیلاگ اور افہام و تفہیم کا ذریعہ بنیں اور نفرتوں کے طوفانوں سے انسانیت کو محفوظ کیا جاسکے۔ اس کے لیے بے پناہ مواقع موجود ہیں بشرطیکہ صحیح خطوط پر مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ کوشش کی جائے۔
۞سوم: مسلم ممالک میں تعلیم اور اخلاقی اقدار کے فروغ اور انصاف اور حقوق و فرائض کے احترام اور معاشی اور سماجی فلاح پر مبنی معاشرے اور ریاست کا قیام ۔ مغربی اقوام سے مشترک مقاصد اور مفادات کی بنیاد پر باعزت دوستی اور اچھے معاشی تعلقات سب کے لیے مفید اور تقویت کا باعث ہوسکتے ہیں، لیکن موجودہ محکومی کا جو نقشہ آج نظرآتا ہے وہ دُنیوی اور دینی ہردواعتبار سے بڑے خسارے کا سودا ہے۔ انسانی اور مادی وسائل کے باب میں اُمت مسلمہ کسی سے پیچھے نہیں لیکن آج ہمارے وسائل دوسروں کی خدمت کے لیے استعمال ہورہے ہیں اور مسلمان عوام ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں اور حکمران ذاتی عیش و عشرت اور مغربی اقوام کی خوش نودی کے حصول میں مصروف ہیں، بلکہ اپنی بقا اور اپنے اقتدار کے لیے ان کا سہارا ڈھونڈتے ہیں اور اُمت کے مفادات کا سودا کرتے ہیں۔ جب تک گھر کی اصلاح نہ ہو اور اُمت کے وسائل اُمت کی فلاح، استحکام اور تقویت کے لیے استعمال نہ ہونے لگیں، حالات تبدیل نہیں ہوں گے۔ صحیح قیادت ہی حالات کو نیا رُخ دے سکتی ہے۔
کتنے افسوس کا مقام ہے کہ اسلام، اللہ کے رسولؐ اور اُمت مسلمہ کے خلاف عالمی سطح پر کیا کچھ ہورہا ہے اور مسلمان حکمران اپنے خول میں بند اور اپنے مفادات کے حصول میں مگن ہیں۔ صرف ایک سربراہ مملکت نے امریکا کے صدر سے صاف الفاظ میں کہا کہ امریکی سفارت کاروں کی ہلاکت پر افسوس ہے لیکن اصل مسئلہ اسلام کے خلاف وہ جارحانہ اقدام ہیں جنھوں نے مسلمانوں کو احتجاج پر مجبور کیا ہے۔ ہمارے اپنے حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ اصل واقعہ کے سات دن کے بعد جب ملک بھر میں احتجاج کی گونج برپا ہوگئی تو انھیں ہوش آیا اور پھر بھی ناموسِ رسالتؐ پر حملہ کرنے والوں کے سامنے سینہ سپر ہونے کے بجاے عشق رسولؐ کے نام پر تعطیل میں عافیت تلاش کی۔ احتجاجی تحریک میں اس قیادت کا کوئی وجود نظر نہ آیا اور امن و امان کے قیام اور احتجاج کو صحیح انداز میں مؤثر بنانے میں ان کا کوئی کردار نہ تھا۔ عالمی سطح پر بھی اُمت کے نقطۂ نظر کو پیش کرنے اور مسلم ممالک کو منظم کرنے اور متحرک کرنے کی کسی کو توفیق نہ ہوئی۔ یہ بڑی اندوہناک صورتِ حال ہے اور یہی وجہ ہے کہ عوام اور قیادت کی سوچ اور ترجیحات میں بُعدالمشرقین ہے۔ اغیار کی جارحانہ کارروائیوں پر احتجاج اُمت کا حق بھی ہے اور فرض بھی___ لیکن اصل مسئلہ صرف احتجاج کا نہیں، اپنے گھر کو درست کرنے، صحیح قیادت کو بروے کار لانے اور اپنی قوت کو اس طرح مجتمع کرنے اور ترقی دینے کا ہے کہ اُمت اپنا تاریخی کردار ادا کرسکے۔
اصل چیلنج یہ ہے کہ کیا ہم اغیار کی اس کثیرجہتی جارحیت کا مؤثر جواب دینے کو تیار ہیں؟


      پہلی جنگ عظیم کس نے شروع کی تھی؟ کیا مسلمانوں نے؟ دوسری جنگ عظیم کس نے شروع کی تھی؟ کیا مسلمانوں نے؟ کس نے آسٹریلیا میں 2 کروڑ سے زائد قدیم قبائلی باشندوں (Aborigenis) کو قتل کیا؟ کیا مسلمانوں نے؟ کس نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرایا؟ کیا مسلمانوں نے؟ کس نے شمالی امریکہ میں10کروڑ انڈینز قتل کئے؟ کیا مسلمانوں نے؟ کس نے جنوبی امریکہ میں 5 کروڑ انڈینز کو قتل کیا؟ کیا مسلمانوں نے؟ کس نے18کروڑ افریقیوں کو غلام بنایا جس میں سے 88% کو مرجانے کے بعد بحراوقیانوس میں پھینک دیا گیا؟ کیا مسلمانوں نے؟کس نے ویتنام، عراق اور افغانستان پر جنگ مسلط کی؟کیا مسلمانوں نے؟ یقینا یہ سب مسلمانوں نے نہیں کیا لہٰذا آپ کو دہشت گردی کی واضح تعریف کرنا ہوگی کیونکہ اگر کوئی غیر مسلم کچھ برا کرتا ہے تو یہ جرم ہے لیکن اگر مسلمان وہی چیز کرتا ہے تو یہ دہشت گردی ہے، آپ کو یہ دہرا معیار ختم کرنا ہوگا، 
      ~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
       ایک رپورٹ کے مطابق "innocent of muslims" نامی یہ گستاخانہ فلم ایک 55 سالہ امریکی اسرائیلی نژاد شہری نکولا بیسلے نے یہودی مالی تعاون سے بنائی جس کیلئے اسے50 لاکھ امریکی ڈالر ملے۔یہ فلم بنانے میں اسے بعض مصری عیسائی تارکین وطن کی مدد حاصل تھی۔ فلم کا پروڈیوسر 2010ء میں والس فرگو بینک سے جعلی چیک کیش کرانے کے الزام میں21 ماہ قید اور7 لاکھ 94 ہزار 700 ڈالر جرمانہ کی سزا کاٹ چکا ہے اور جج سوزین سیگل نے اسے معاشرے کیلئے خطرہ قرار دیا تھا۔ امریکی وکیل رابرٹ ڈگڈیل نے لاس اینجلس کورٹ میں نکولاکو ذہنی مریض بتایا ہے جو مختلف ناموں سے اس طرح کے کام کرتا ہے۔ وکیل کے مطابق پاسپورٹ میں اس کا نام مارک بیسلے یوسف ہے جبکہ ڈرائیونگ لائسنس میں نکولا بیسلے نکولا ہے اور گستاخانہ فلم کے اجراء کے وقت اس پروڈیوسر نے اپنے آپ کو اسرائیلی یہودی سیم بیسلے کے تیسرے نام سے متعارف کرایا۔ فلم میں کام کرنے والی اداکارہ سنڈی لیگارلیا نے فلم کے ڈائریکٹر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کیا کیونکہ اداکارہ کے بقول اسے فلم کا نام ”صحرائی جنگجو“ بتایا گیا تھا جو 2 ہزار سال قبل مصر کے بارے میں تھی۔ اداکارہ کا کہنا ہے کہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس فلم کو اسلام دشمن پروپیگنڈے کیلئے استعمال کیا جائے گا کیونکہ فلم میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں اشتعال انگیز کلمات ڈبنگ کرکے شامل کئے گئے ہیں۔ باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ لاس اینجلس کی فیڈرل کورٹ نے27 ستمبر 2012ء کو ملعون پروڈیوسر نکولا بیسلے کو اسلام دشمن فلم بنانے کے الزام میں گرفتار کرلیا ہے اور اس کے قبضے سے641 جعلی ناموں کے ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈزبرآمد ہوئے ہیں۔


      Read more: Free-Books  <<Click here>>>

      Hajj Sermon - 25 October 2012 Terrorism, Suicide Bombing Forbidden in Islam


      MOUNT ARAFAT: The hajj sermon was delivered by Mufti-e-Azam Saudi Arabia, Sheikh Abdul Aziz bin Sheikh at Masjid-e-Nimra.



      During the sermon Mufti-e-Azam urged Muslims to set aside their differences, adding that there was no association between terrorism and Islam. The Mufti also declared suicide haram (against Islam).

      MOUNT ARAFAT: The hajj sermon was delivered by Mufti-e-Azam Saudi Arabia, Sheikh Abdul Aziz bin Abdullah at Masjid-e-Nimra.

      During the sermon Mufti-e-Azam urged Muslims to set aside their differences, adding that there was no association between terrorism and Islam. The Mufti also reminded Muslims that suicide haram (against Islam) and those who commit it will not be forgiven.
      While addressing the pilgrims, Mufti-e-Azam added that all Muslims should become one economic force and focus on science and technology.
      He further said that the Islamic system of governance was better than a fake democracy. Political problems can be solved through dialogue, he said.

      The Mufti urged pilgrims to respect all nations and highlighted that blasphemy would not be tolerated. He also called upon all Muslims to unite and help each other.
      He further said that the Islamic system of governance was better than a fake democracy. Political problems can be solved through dialogue, he said.

      The Mufti urged pilgrims to respect all nations and highlighted that blasphemy would not be tolerated. He also called upon all Muslims to unite and help each other.

      Hajj Pilgrims Perform Wuquf-e-Arafat

      Earlier pilgrims performed the most vital pillar of Hajj, Wuquf-e-Arafat (Stay at Mount Arafat).

      Hundreds of thousands of Hajj pilgrims, after overnight stay in Mina, started their journey to Mount Arafat after Fajr prayers.

      The world’s largest annual pilgrimage, the Hajj, began on Wednesday with hundreds of thousands of Muslims pouring into the camp of Mina from Makkah to prepare for the rituals.

      The pilgrims are estimated to total up to 2.5 million this year.

      At Mount Arafat, around 14 kilometres southeast of Mina, the pilgrims will spend the day in prayer and reflection.

      After sunset, they will move on to Muzdalifah, halfway between Mount Arafat and Mina, where they spend the night.

      Spiritual Experience by top neurosurgeon during a coma




      A top neurosurgeon claims to have ‘Proof of heaven’ after making a full recovery from a seven day coma that saw his neocortex inactivated. Dr Eben Alexander, who teaches neuroscience at Harvard University among others, fell seriously ill after contracting a rare form of bacterial meningitis in 2008. Within hours of developing a severe headache, Dr Alexander’s entire cortex—the section of the brain that controls thought and emotion —had shut down. Though his chances of survival were low, he awoke from the coma seven days later and began describing an ‘other worldly experience’. "I was in a place of clouds. Big, puffy, pink-white ones that showed up sharply against the deep blue-black sky," he wrote in an article for Newsweek. He also goes on to describe "Flocks of transparent, shimmering beings arced across the sky, leaving long, streamer-like lines behind them."
      While Dr Alexander admits his scientific expertise has made him skeptical of afterlife experiences, he claims the loss of function to his cortex makes his experiences unique.
      "I’m not the first person to have discovered evidence that consciousness exists beyond the body," he said.
      "I know full well how extraordinary, how frankly unbelievable, all this sounds."
      "But as far as I know, no one before me has ever traveled to this dimension (a) while their cortex was completely shut down, and (b) while their body was under minute medical observation, as mine was for the full seven days of my coma."
      Dr Alexander admits many still struggle to accept his story, particularly his medical colleagues.
      His forthcoming book, "Proof of Heaven, A Neurosurgeon journey into the Afterlife" that aims to dispel the skepticism will be published by Simon & Schuster later this month.
      "I’m still a doctor, and still a man of science every bit as much as I was before I had my experience,” he said. “But on a deep level I’m very different from the person I was before, because I’ve caught a glimpse of this emerging picture of reality."
      Excerpts, Read more:

      حج اور عمرہ: چند توجہ طلب اُمور :Hajj and Umran- Some Common Mistakes

      Hajj [English]http://faithforum.wordpress.com/2012/10/09/muslims-celebrate-abraham-great-trial/

      Attributes of Kaaba, Makkah in Bible: http://d1.islamhouse.com/data/en/ih_videos/flv/single/398329.mp4 
       اسلام کی عمارت جن بنیادی ارکان پر قائم ہے ان میں حجِ بیت اللہ بھی ایک اہم رکن ہے۔ صاحبِ استطاعت ہونے کی صورت میں ہر مسلمان عاقل وبالغ مرد اور عورت پر زندگی میں ایک بار حج کرنا فرض ہے۔حج میں مالی وبدنی دونوں طرح کی عبادات پائی جاتی ہیں،چنانچہ اس کی فرضیت کے لیے مالی اور بدنی، دونوں قدرتیں ضروری ہیں۔ ارشادِ باری ہے: وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْْہِ سَبِیْلًا (اٰل عمرٰن۳:۹۷)’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے‘‘۔ حج اپنے اندر عالم گیر اخوت ومحبت اور انسانی مساوات کاعملی پیغام رکھتا ہے۔ تمام حجاج کاایک وقت میں ایک جگہ جمع ہوکر ایک ہی طرح کے اعمال وشعائر انجام دینا، جہاں ایک طرف: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ اِخْوَۃٌ (الحجرات۴۹:۱۰) ’’مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں‘‘ کے احساس کوپختگی دیتا ہے، وہیں دوسری طرف ربِ واحد کے حضور انسانی مساوات کا نادر نمونہ پیش کرتا ہے۔
      اس عبادت کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے۔ نبی کریمؐ نے بھی صرف ایک بار حج کیا اور فرما یا: ’’مجھ سے حج کے مناسک سیکھ لو، اس لیے کہ مجھے نہیں معلوم، شاید کہ میں اس حج کے بعد دوبارہ حج نہ کرسکوں‘‘ (مسلم، ۳۱۹۷) ۔ ہر اسلامی عبادت میں دوشرائط کا پایا جانا ضروری ہے: اخلاص اورپیرویِ شریعت۔ چونکہ یہ عبادت عموماً انسان زندگی میں صرف ایک بار ادا کرتا ہے، اس لیے اس میں خطاؤں اور لغزشوں کے ارتکاب کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ حج کی تمام جزئیات کا کتابی مطالعہ اور نظری علم الگ چیز ہے، اور عملی حج کرنا الگ۔ اسی لیے کثیر مطالعہ کے باوجود حجاجِ کرام سے لغزشیں سرزد ہوجاتی ہیں۔لغزشیں تو خیر بشریت کا خاصہ ہیں، تاہم اس بات کی کوشش کرنا کہ ہمارا حج خطاؤں سے پاک صاف ہو، ہر مومن کے لیے ضروری ہے ۔ اس مضمون میں چند خطاؤں پر متنبہ کیا گیا ہے جو عموماً حجاجِ کرام سے سرزد ہو جاتی ہیں۔ اِن خطاؤں کا سبب ناواقفیت ہے یا اندھی تقلید۔ مومنانہ کردار یہ ہے کہ جب صحیح علم حاصل ہوجائے تو اس پر عمل کیا جا ئے۔ اسی لیے یہ کوشش کی گئی ہے کہ دلائل کی روشنی میں صحیح بات سامنے لائی جائے۔
      اس سلسلے میں سب سے زیادہ اہمیت ادایگیِ حج کے وقت کے تعیین کو حاصل ہے۔ فقہاے کرامؒ کے درمیان اس امر میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا فرضیتِ حج کے بعد فوراً حج کرنا ضروری ہے یا اس میں تاخیر کی گنجایش ہے۔ احناف کے نزدیک فوراً حج کرنا ضروری نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں یہ رخصت ایک وبا کی طرح پھیل گئی ہے، اور حج کے لیے عملاً بڑھاپے کا وقت مخصوص مان لیاگیا ہے۔ حالانکہ شرعی لحاظ سے بھی اور موجودہ حالات کے لحاظ سے بھی جوانی میں حج کرلینا ہی بہتر ہوتاہے، کیونکہ زندگی کا کوئی بھروسا نہیں۔
      اگر کسی شخص پر حج فرض ہوجائے اور وہ اسے بڑھاپے پر اٹھا رکھے اور پھر حج کیے بغیر ہی مر جائے تو سخت گناہ گار ہوگا۔ نیز حج ایک پُرمشقت عبادت ہے۔ اسی لیے اللہ کے رسولؐ نے خواتین کا جہاد حج اور عمرہ کو قرار دیا۔ موجودہ دور میں کثرتِ حجاج کی وجہ سے اس میں مزید مشقتیں پیدا ہوگئی ہیں۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ بوڑھے حجاج خواتین وحضرات ارکانِ حج کیسے اور کس قدر ادا کرپاتے ہیں۔ بڑھاپے میں حج کا وطیرہ برعظیم پاک و ہند کے ساتھ خاص نظر آتا ہے، ورنہ دنیابھرکے بیش تر ممالک سے آنے والے حجاجِ کرام کی اکثریت جوانوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ہمارے علماے کرام کو اس مسئلے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کے سامنے حج کی اہمیت اجاگر کرنا اور انھیں جوانی میں حج کرنے پر اُبھارنا چاہیے۔

      احرام کے سلسلے میں سرزد ہونے والی خطائیں
      ۱۔ میقات سے حج اور عمرہ کی نیت کرنا لازم ہے۔ میقاتیں اللہ کے رسولؐکی جانب سے متعین کردہ ہیں۔ حاجی ومعتمر کے لیے بغیر احرام کے میقات سے گزرنا جائز نہیں ہے، خواہ وہ زمین کے راستے سفر کررہا ہو یا بحری یا ہوائی راستے سے۔ بعض حجاج ہوائی سفر میں بغیر احرام کے میقات سے گزر جاتے ہیں اور جدہ ایئر پورٹ پہنچ کر احرام باندھتے ہیں۔ یہ عمل سنت کے خلاف ہے۔ ان کو چاہیے کہ جہاز میں سوار ہونے سے قبل احرام باندھ لیں اور میقات سے پہلے جہاز ہی میں نیت کرلیں۔ اگر بغیر احرام کے وہ جدہ پہنچ جاتے ہیں تو واپس میقات تک جائیں اور وہاں سے احرام باندھیں۔ اگر ایسا نہیں کرتے ہیں اور جدہ ہی سے احرام باندھتے ہیں تو اکثر علما کے نزدیک اُن پر ایک جانور کے ذبح کرنے کا فدیہ واجب ہے، جو مکہ میں ذبح کیا جائے گا اور فقرا میں تقسیم ہوگا۔
      ۲۔ احرام کی حالت میں حاجی ومعتمر دو چادریں استعمال کرتا ہے۔ ایک تہبند کی طرح باندھ لیتا ہے اور دوسری کندھے پر ڈال لیتا ہے۔ بعض حجاج کرام کی چادرناف سے نیچے سرک جاتی ہے اور وہ اس پر کوئی توجہ نہیں دیتے، حالانکہ ناف ستر میں داخل ہے۔ اس کو ڈھکنے کا خصوصی التزام ہونا چاہیے۔

      طواف میں سرزد ہونے والی خطائیں
      ۱۔ احتیاطاً حجرِ اسود اور رکن یمانی کے درمیان سے طواف شروع کرنا، غلو فی الدین ہے جس سے نبی کریمؐ نے منع کیا ہے۔
      ۲۔ زیادہ بھیڑ کی صورت میں حجرِ اسماعیل ؑ (حطیم)کے اندر سے طواف کرنا۔ ایسی صورت میں طواف درست نہیں ہوگا، کیونکہ حطیم خانہ کعبہ کاحصہ ہے۔
      ۳۔ ساتوں چکر میں رمل کرنا( دلکی چال چلنا)۔ رمل صرف ابتدائی تین چکروں میں ہے۔
      ۴۔ حجرِ اسود کے بوسے کے لیے شدید دھکا مکی کرنا۔ کبھی کبھی نوبت گالم گلوچ اور لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے، حالانکہ یہ چیز حج میں خصوصیت کے ساتھ ممنوع ہے۔ ارشادِ باری ہے: اَلْحَجُّ اَشْہُرٌ مَّعْلُومَاتٌ فَمَن فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوقَ وَلاَ جِدَالَ فِیْ الْحَجِّ (البقرہ۲:۱۹۷) ’’حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔ جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے، اسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران اس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بدعملی، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو‘‘۔
      ۵۔ حجرِ اسود کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ یہ بذاتِ خود نفع ونقصان پہنچاسکتا ہے۔ اسی وجہ سے بعض حضرات اس کا استلام کرکے اپنے پورے بدن پر اور بچوں کے بدن پر ہاتھ پھیرتے ہیں، یہ سراسر جہالت اورناسمجھی کی بات ہے۔ نفع ونقصان کی قدرت صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ حضرت عمرؓ کا واقعہ ہے: ’’آپؓ نے حجرِ اسود کو بوسہ دیا اور فرمایا: مجھے علم ہے کہ تو صرف ایک پتھر ہے، تو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع، اور اگر میں نے اللہ کے رسولؐ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا‘‘۔(بخاری، ۱۵۹۷، مسلم، ۳۱۲۶۔۳۱۲۸)
      ۶۔ پورے خانہ کعبہ کا استلام کرنا۔ ایسا کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ استلام ایک عبادت ہے، اور ہر عبادت میں اللہ کے رسولؐ کی پیروی ضروری ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے صرف حجرِاسود اور رکنِ یمانی کا استلام کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ: ’’حضرت عبداللہ بن عباسؓ اورحضرت معاویہؓ طواف کررہے تھے۔ حضرت معاویہؓ تمام ارکانِ کعبہ کا استلام کرنے لگے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے پوچھا کہ آپؓ ان دونوں ارکان کا استلام کیوں کررہے ہیں، جب کہ اللہ کے رسولؐ نے ان کا استلام نہیں کیا ہے؟ حضرت معاویہؓ نے فرمایا: خانہ کعبہ کا کوئی حصہ متروک نہیں ہے۔ اس پر حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا: اللہ کے رسولؐ کا عمل ہی تمھارے لیے اسوۂ حسنہ ہے، تو حضرت معاویہؓ نے فرمایا: آپؓ نے درست فرمایا‘‘۔(مسند احمد، ۱۸۷۷)
      ۷۔ہر طواف کے لیے مخصوص دعا کا التزام کرنا: بایں طور کہ اس کے علاوہ کوئی دعا نہ کرنا، بلکہ بسا اوقات اگر دعا پوری ہونے سے قبل طواف مکمل ہوجاتا ہے تو دعا بیچ ہی میں منقطع کرکے اگلے طواف میں پڑھی جانے والی دوسری دعا شروع کردی جاتی ہے، اور اگر طواف مکمل ہونے سے قبل دعا پوری ہوجاتی ہے تو بقیہ طواف میں خاموش رہا جاتا ہے۔ یہ طرزِ عمل اللہ کے رسولؐ سے ثابت نہیں۔
      ۸۔ کچھ لکھی ہوئی دعاؤں کو ان کا معنی ومطلب سمجھے بغیر پڑھتے رہنا۔حالانکہ طواف کرنے والے کو معنی ومطلب سمجھ کر دعا کرنی چاہیے خواہ اپنی مادری زبان میں ہی دعا کرے۔
      ۹۔ بعض حجاج کا ایک گروپ کی شکل میں طواف کرنا بایں صورت کہ ان میں سے ایک شخص بلند آواز سے دعا پڑھے اور بقیہ بلند آواز میں اسے دہرائیں۔ یہ چیز دیگر افراد کے خشوع وخضوع میں مخل اور ان کے لیے تکلیف کا باعث بنتی ہے ۔حدیث میں ہے کہ: ’’ایک بار اللہ کے رسولؐ نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ نماز میں بلند آواز سے تلاوت کررہے ہیں تو آپؐ نے فرمایا:نمازی اپنے رب سے ہم کلام ہوتا ہے، تو وہ دیکھے کہ اپنے رب سے کیا کہہ رہا ہے، اورقرآن کی تلاوت میں ایک دوسرے سے آوازیں بلند کرنے کا مقابلہ نہ کرو‘‘۔(موطا امام مالک، ۱۷۷)
      ۱۰۔ بعض حجاج یہ سمجھتے ہیں کہ طواف کے بعد کی دو رکعتیں لازماً مقامِ ابراہیمؑ کے پاس پڑھنی چاہییں، چنانچہ اس کے لیے دھکا مکی کرتے اور طواف کرنے والوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتے ہیں،حالانکہ یہ خیال صحیح نہیں ۔ یہ دو رکعتیں بیت اللہ میں کسی بھی مقام پر پڑھی جاسکتی ہیں۔
      ۱۱۔ بعض حضرات مقامِ ابراہیم ؑ کے پاس بلاسبب کئی کئی رکعات پڑھتے ہیں، جب کہ دیگر حضرات طواف سے فراغت کے بعد وہاں نماز کے منتظر ہوتے ہیں۔
      ۱۲۔ بسا اوقات نماز سے فراغت کے بعد گروپ کا رہنما پوری جماعت کے ساتھ بلند آواز سے دعا کرتا ہے اور دیگر نمازیوں کی نماز میں مخل ہوتا ہے۔

      سعی کے دوران سرزد ہونے والی خطائیں
      ۱۔ بعض حجاج صفا اور مروہ پر چڑھ کر خانہ کعبہ کی جانب رخ کرکے تین بار تکبیرِ تحریمہ کی طرح تکبیر کہتے ہوئے ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ یہ عمل سنت کے خلاف ہے۔
      آپؐ کے حج کے طریقے میں مروی ہے کہ: ’’جب آپؐ صفا کے قریب پہنچے تو یہ آیتِ کریمہ تلاوت فرمائی: اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِن شَعَآءِرِ اللّٰہِ (البقرہ۲:۱۵۸) ’’یقیناًصفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں‘‘۔ اور فرمایا: میں اس سے شروع کرتا ہوں جس سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا ہے، چنانچہ آپؐ نے صفا سے سعی کا آغاز کیا اور اس پر چڑھے یہاں تک کہ خانہ کعبہ نظر آگیا، پھر آپؐ نے قبلہ رو ہوکر اللہ تعالیٰ کی تسبیح کی اور اس کی کبریائی بیان کی اور یہ دعا پڑھی: لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ، لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ، اَنْجَزَ وَعْدَہٗ، وَنَصَرَ عَبْدَہٗ، وَھَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہٗ ،’’اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، بادشاہت اسی کی ہے، اور سارے شکریہ کا مستحق بھی وہی ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، وہ اکیلا ہے، اس نے اپنا وعدہ پورا کیا، اور اپنے بندے کی مدد کی، اور تن تنہا تمام گروہوں کو شکست دی‘‘۔ پھر اس کے درمیان دعا کی۔ اسی طرح تین بار کیا۔ پھر اُتر کر مروہ کی جانب چلے، یہاں تک کہ جب وادی کے بیچ میں پہنچے تو تیزرفتاری سے چلے، اور جب اوپر چڑھ گئے تو عام رفتار سے چلے، یہاں تک کہ مروہ پر پہنچ گئے اور وہاں بھی ویسے ہی کیا جیسے صفا پر کیا تھا‘‘۔(مسلم، ۳۰۰۹)
      ۲۔ پوری سعی کے دوران تیزرفتاری سے چلنا سنت کے خلاف ہے۔ تیزرفتاری سے صرف دونوں سبز لائٹوں کے درمیان چلنا ہے، بقیہ سعی میں عام چال چلنا ہے۔
      ۳۔ بعض خواتین دونوں سبز لائٹوں کے درمیان مردوں کی طرح تیزرفتاری سے چلتی ہیں، حالانکہ عورتوں کو تیزی سے نہیں، بلکہ عام رفتار سے چلنا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا ارشاد ہے: ’’طواف میں رمل اور سعی میں تیزرفتاری عورتوں کے لیے نہیں ہے‘‘۔(سنن دارقطنی، ۲۷۶۶، سنن کبری للبیہقی، ۹۳۲۱)
      ۴۔ بعض حجاج جب صفا یا مروہ کے قریب پہنچتے ہیں تو یہ آیت پڑھتے ہیں: اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِن شَعَآءِرِ اللّٰہِ ، حالانکہ سنت یہ ہے کہ صرف پہلی سعی میں جب صفا کے قریب پہنچے تو یہ آیت پڑھے۔
      ۵۔ بعض حجاج ہر چکر میں مخصوص دعا پڑھتے ہیں۔ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
      ۶۔ بعض حجاج سعی کے دوران اضطباع کرتے ہیں، یعنی دایاں کندھا کھلا رکھتے ہیں۔ یہ درست نہیں ہے۔ اضطباع صرف طوافِ قدوم میں مسنون ہے۔

      وقوفِ عرفہ میں سرزد ہونے والی خطائیں
      ۱۔ بعض حجاج حدودِ عرفہ سے پہلے ہی قیام کرلیتے ہیں، اور سورج غروب ہونے تک وہیں رہتے ہیں، پھر وہیں سے مزدلفہ چلے جاتے ہیں، اور عرفہ میں قیام ہی نہیں کرتے۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے اور اس کی وجہ سے حج فوت ہوجاتا ہے، کیونکہ وقوفِ عرفہ حج کا بنیادی رکن ہے۔ اس کے بغیر حج درست نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ جو وقوف کے وقت میں یہاں وقوف نہ کرے اس کا حج نہیں ہوا۔ ارشادِ نبویؐ ہے: ’’حج وقوفِ عرفہ کا نام ہے، چنانچہ جو شخص مزدلفہ کی رات فجر طلوع ہونے سے قبل بھی عرفہ آگیا تو اس نے حج پالیا‘‘(سنن ترمذی، ۸۸۹، سنن نسائی، ۳۰۴۴، سنن ابن ماجہ، ۳۰۱۵)۔ یہ غلطی اس وجہ سے ہوتی ہے کہ بعض حضرات عرفہ سے قبل ہی قیام کرلیتے ہیں اور دوسرے انھیں دیکھ کر دھوکاکھا جاتے ہیں۔ اس لیے حجاجِ کرام کو چاہیے کہ وہ حدودِ عرفہ کی اچھی طرح تحقیق کرکے ہی قیام کریں۔ حدود کا تعیین کرنے والے بورڈوں اور وہاں کام کرنے والے افراد سے رہنمائی لینا مناسب ہوگا۔
      ۲۔ بعض حجاج غروبِ آفتاب سے قبل ہی عرفہ سے نکل جاتے ہیں۔ یہ عمل سنت کے خلاف ہے۔ آپؐ غروب کے بعد عرفہ سے نکلے تھے۔
      ۳۔ دعا کے دوران قبلہ کے بجاے جبل رحمت کی جانب رخ کرنا۔ یہ سنت کے خلاف ہے۔ آپؐ نے قبلہ رو ہوکر دعا کی۔
      ۴۔ بعض حجاج عرفہ میں ظہر اور عصر کی نمازیں اپنے اپنے وقت پر مکمل ادا کرتے ہیں۔ یہ سنت کے خلاف ہے۔ یہاں ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ ظہر کے وقت میں ادا کرنی چاہیے، جیسا کہ نبیؐ نے کیا۔ حضرت جابرؓ نبی کریمؐ کے حج کے تذکرے میں عرفہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’پھر اذان کہی گئی، پھر اقامت کہی گئی اور آپؐ نے ظہر پڑھی، پھر اقامت کہی گئی اور آپؐ نے عصر پڑھی، اور ان دونوں کے درمیان کچھ نہیں پڑھا‘‘۔(مسلم، ۳۰۰۹)
      ۵۔ منیٰ، عرفہ اور مزدلفہ میں نماز قصر کے ساتھ پڑھنے کا حکم حج کا ایک خاص حکم ہے۔ اس میں اہلِ مکہ اور غیر اہلِ مکہ سب شامل ہیں۔ اس لیے کہ نبی کریمؐ نے حجۃالوداع کے موقع پر ان مقامات پر جب جب نمازیں پڑھائیں تو آپؐ کے ساتھ اہلِ مکہ بھی ہوتے تھے، لیکن آپؐ نے انھیں نماز پوری کرنے کا حکم نہیں دیا۔ اگر نماز پوری کرنا ضروری ہوتا تو آپؐ انھیں اس کا حکم دیتے، جیسا کہ فتحِ مکہ کے موقع پر آپؐ نے کیا۔ حضرت عمران بن حصینؓ فرماتے ہیں: ’’میں فتحِ مکہ میں رسولؐ اللہ کے ساتھ تھا۔ آپؐ نے وہاں ۱۸دن قیام کیا۔ آپؐ دو رکعتیں پڑھتے تھے اور کہتے: ’’اے اہلِ مکہ، چار رکعتیں پڑھو، کیونکہ ہم مسافر ہیں‘‘ (سنن ابوداؤد، ۱۲۳۱) ۔ البتہ اگر کچھ لوگ منیٰ یا عرفہ میں مستقل سکونت اختیار کرلیں تو قصر نہیں کریں گے۔ (موطا امام مالک، باب صلاۃ منیٰ، ۹۰۴)
      ۶۔ عرفہ میں ۹ذی الحجہ کی ظہر اور عصر، نیز مزدلفہ میں مغرب اور عشاء ایک ساتھ جمع کرکے پڑھیں گے، جب کہ منیٰ میں تمام نمازیں اپنے اپنے وقت پر پڑھیں گے۔

      مزدلفہ میں سرزد ہونے والی خطائیں
      ۱۔ مزدلفہ کی رات کو سب سے افضل رات بتایا جاتا ہے اور اس میں عبادت کی بڑی فضیلت بیان کی جاتی ہے۔ حالانکہ اللہ کے رسولؐ نے اس رات مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھ کر طلوع فجر تک آرام کیا۔ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں: ’’پھر آپؐ مزدلفہ آئے، اور یہاں مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک اذان اور دو اقامت سے ادا کیں، اور ان دونوں کے درمیان کوئی نفل نماز نہیں پڑھی۔ پھر آپؐ لیٹ گئے یہاں تک کہ فجر طلوع ہوگئی‘‘۔ (مسلم،۳۰۰۹)
      ۲۔ بعض حجاج غروب آفتاب کے فوراً بعد مغرب پڑھ لیتے ہیں خواہ عرفہ ہی میں ہوں۔ بہتر یہ ہے کہ غروب کے فوراً بعد عرفہ سے نکل جائیں اور مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشاء ایک ساتھ پڑھیں۔
      رمی جمرات میں سرزد ہونے والی خطائیں
      ۱۔ یہ اعتقاد رکھنا کہ مزدلفہ سے کنکریاں چننا ضروری ہے، چنانچہ رات میں بڑی مشقتوں کے ساتھ کنکریاں چنتے ہیں اور پھر منیٰ میں ان کو بڑا سنبھال کر رکھتے ہیں۔ اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں: ’’عقبہ کی صبح اللہ کے رسولؐ نے اپنی سواری پر بیٹھے ہوئے مجھ سے فرمایا کہ میرے لیے کنکریاں چنو، تو میں نے آپؐ کے لیے کنکریاں چنیں، جو چنے کے دانے کے برابر تھیں۔ جب میں نے انھیں آپؐ کے ہاتھ میں رکھا تو آپؐ نے فرمایا : ان جیسی کنکریوں سے رمی کرو، اور دین میں غلو سے بچو، کیونکہ تم سے پہلے کے لوگوں کو دین میں غلو نے ہلاک کردیا‘‘ (سنن نسائی، ۳۰۵۷، سنن ابن ماجہ، ۳۰۲۹)۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے جمرہ کے پاس کھڑے ہو کر کنکریاں چننے کا حکم دیا۔
      ۲۔ رمی کرتے ہوئے یہ اعتقاد رکھنا کہ ہم شیطان کو مار رہے ہیں، چنانچہ جمار کو شیطان کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ نیز انتہائی غصے اور غیظ وغضب کے ساتھ شیطان کو صلواتیں سناتے ہوئے کنکری مارتے ہیں۔ بسا اوقات بعضے اشخاص غصے کی شدت کی وجہ سے اوپر چڑھ کر جمار کو جوتوں اور بڑے پتھروں سے مارنے لگتے ہیں۔ یہ سب کچھ بے بنیاد ہے۔ اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے: ’’خانہ کعبہ کا طواف، صفا مروہ کی سعی اور رمی جمار اللہ تعالیٰ کا ذکر قائم کرنے کے لیے ہے‘‘۔(سنن ابوداؤد، ۱۸۹۰)
      ۳۔ بڑی بڑی کنکریوں، جوتے، چپلوں اور لکڑیوں سے رمی کرنا۔ یہ سراسر شریعت کے خلاف ہے۔ آپؐ نے چنے کے برابر کنکریوں سے رمی کی اور بصراحت فرمایا کہ: ’’اور دین میں غلو سے بچو، کیونکہ تم سے پہلے کے لوگوں کو دین میں غلو نے ہلاک کردیا‘‘۔
      ۴۔ جمرات کی طرف انتہائی شدت کے ساتھ بڑھنا، بایں طور کہ نہ دل میں اللہ کا خوف ہو اور نہ بندوں پر رحم کا جذبہ۔ چنانچہ لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ اور کبھی کبھی بات گالم گلوچ اور مار پیٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ اس طرح کے طرزِ عمل سے بچنا چاہیے اور اطمینان وسکون کے ساتھ رمی کرنی چاہیے۔
      ۵۔ ایامِ تشریق (۱۱،۱۲،۱۳ذی الحجہ) میں پہلے اور دوسرے جمرہ کی رمی کے بعد دعا نہ کرنا، جب کہ اللہ کے رسولؐ کے طریقۂ حج میں یہ دعا ثابت ہے۔ ’’اللہ کے رسولؐ جب مسجد منیٰ کے قریب والے جمرہ کو کنکریاں مارتے تو سات کنکریاں مارتے، ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے، پھر آگے بڑھ کر کھڑے ہوجاتے اور قبلہ رو ہوکر ہاتھ اٹھا کر دیر تک دعا کرتے۔ پھر دوسرے جمرہ کے پاس آتے اور اسے بھی سات کنکریاں مارتے، ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے، پھر بائیں جانب وادی سے قریب اُتر کر کھڑے ہوجاتے اور ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے۔ پھر عقبہ کے قریب والے جمرہ کے پاس آتے اور اسے سات کنکریاں مارتے، ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے، پھر واپس چلے جاتے اور اس کے بعد کھڑے نہیں ہوتے‘‘۔(بخاری، ۱۷۵۳)
      ۶۔ ساری کنکریاں ایک بار میں مار دینا۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے، اور ایسی صورت میں یہ صرف ایک کنکری شمار ہوگی۔ ہر کنکری الگ الگ مارنی ضروری ہے۔
      ۷۔ رمی کرتے وقت غیر منقول دعائیں پڑھنا، جیسے اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا رِضًا لِلرَّحْمٰنِ، وَغَضَبًا لِلشَّیْطَانِ۔ بسااوقات اس دعا کو پڑھنے کے چکر میں نبیؐ سے منقول تکبیر تک چھوڑ دی جاتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ آپؐ سے جتنا ثابت ہے بلا کمی بیشی کے اس پر عمل کیا جائے۔ آپؐ صرف تکبیر کہتے ہوئے ہر کنکری مارتے تھے۔
      ۸۔ رمی جمار میں سستی کرنا اور بلاعذر، قدرت کے باوجود دوسروں کو رمی کے لیے وکیل بناکر بھیجنا۔ ارشادِ باری ہے: وَاَتِمُّواْ الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ (البقرہ۲:۱۹۶) ’’اللہ کی خوشنودی کے لیے جب حج اور عمرہ کی نیت کرو تو اسے پورا کرو‘‘۔ اس لیے جو شخص رمی کرنے کی طاقت رکھتا ہو اسے خود رمی کرنی چاہیے اور اس راہ میں آنے والی مشقتوں اور پریشانیوں پر صبر کرنا چاہیے، کیونکہ حج ایک قسم کا جہاد ہے اور اس میں پریشانیوں کا وجود لازم ہے۔
      ۹۔ رمی جمرات کے وقت کے تعیین کے سلسلے میں علماے کرام کی دو رائیں ہیں۔ ایک راے یہ ہے کہ ۱۰ذی الحجہ کی رمی کا وقت طلوعِ آفتاب کے بعد شروع ہوتا ہے اور ۱۱،۱۲،۱۳ذی الحجہ کو اس کا وقت زوال کے بعد شروع ہوتا ہے، اس سے قبل رمی کرنا جائز نہیں ہے۔ بعض دیگر علماے کرام نے حالات کے لحاظ سے یہ فتویٰ دیا کہ طلوعِ فجر کے بعد بھی رمی کی جاسکتی ہے۔ اس مسئلے میں ایک معتدل راے یہ نظر آتی ہے کہ وقت کے تعیین کا امر حاجی کی صواب دید پر چھوڑ دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے: فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ (التغابن۶۴:۱۶) ’’جہاں تک تمھارے بس میں ہو اللہ سے ڈرتے رہو‘‘۔ نیز آپؐ نے فرمایا: میں نے جس سے تمھیں منع کیا ہے اس سے باز رہو اور جس کا حکم دیتا ہوں اسے حسبِ استطاعت بجا لاؤ‘‘۔(بخاری:۷۲۸۸، مسلم: ۶۲۵۹)
      آیتِ کریمہ اور حدیث نبویؐ کو سامنے رکھتے ہوئے ہر حاجی خود یہ فیصلہ کرے کہ حالات کے مطابق اس کے لیے کس طریقے پر عمل کرنا زیادہ بہتر ہے، مثلاً جن حجاج کرام کو منیٰ میں خیمے میسر ہوں انھیں اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ زوال کے بعد رمی کریں۔ البتہ جن حجاج کو منیٰ میں خیمے میسر نہیں ہوتے اور انتظامیہ کے افراد انھیں ہمہ وقت شارع پیمائی پر مجبور رکھتے ہیں، ان کے لیے رخصت پر عمل کرتے ہوئے طلوعِ فجر کے بعد سے ہی رمی کی اجازت ہونی چاہیے۔

      طوافِ وداع میں سرزد ہونے والی خطائیں
      ۱۔ ۱۲یا ۱۳ذی الحجہ کو رمی جمرات سے پہلے منیٰ سے مکہ آکر طوافِ وداع کرلینا، پھر منیٰ واپس جاکر رمی کرنا، پھر وہیں سے وطن لوٹ جانا۔ یہ جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ سنت کے خلاف ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں: ’’لوگوں کو یہ حکم دیا گیا کہ ان کا آخری وقت بیت اللہ کے ساتھ ہو(یعنی طوافِ وداع کریں)، البتہ حائضہ سے یہ معاف کردیا گیا‘‘ (بخاری، ۱۷۵۵، مسلم، ۳۲۸۴)۔ نیز حضرت عمرؓ کا اس باب میں صراحتاً یہ حکم ہے کہ جس نے طوافِ وداع کے بعد رمی کی تو اس کا طواف وداع نہیں ہوگا، اور اس پر یہ واجب ہوگا کہ وہ رمی کے بعد دوبارہ طواف کرے۔ اگر وہ دوبارہ طواف نہیں کرتا تو اس کا حکم اس شخص کے حکم کی طرح ہے جس نے طوافِ وداع کیا ہی نہیں۔
      ۲۔ طوافِ وداع کے بعد بلا عذر مکہ میں رکے رہنا، البتہ اگر طواف کے بعد نماز کا وقت ہوجائے تو نماز پڑھ سکتا ہے۔ اسی طرح سفر کی ضروریات کی وجہ سے اگر دیر ہوجائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
      ۳۔ طوافِ وداع کے بعد خانہ کعبہ کی جانب منہ کرکے مسجدِ حرام سے نکلنا، بایں طور کہ خانہ کعبہ کی جانب پیٹھ نہ ہو، اور یہ سمجھنا کہ اس میں خانہ کعبہ کی تعظیم واحترام کا پہلو مدِ نظر ہے۔ یہ سراسر بدعت ہے۔ اللہ کے رسولؐ، خلفاے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ میں سے کسی کا یہ عمل نہیں تھا۔
      ۴۔ طواف مکمل کرنے کے بعد خانہ کعبہ کی جانب رخ کرکے الوداعی دعاوسلام کرنا۔ یہ چیز بھی بدعت ہے۔ اس لیے کہ جس طرح نبیؐ کی اتباع میں ان افعال کو کرنا واجب ہے جو آپؐ نے کیے ہیں، اسی طرح ان افعال کو ترک کرنا بھی ضروری ہے جو آپؐ نے نہیں کیے تھے۔

      مسجدِ عائشہؓ سے احرام باندھ کر کثرت سے عمرہ کرنا
      حدودِ حرم کے اندر مقیم اہلِ مکہ اگر عمرہ کرنا چاہیں تو ان کے لیے ضروری ہے کہ حدودِ حرم سے باہر جاکر احرام باندھیں۔ اسی لیے حجۃالوداع کے موقع پر جب حضرت عائشہؓ ماہواری کی وجہ سے عمرہ نہ کرسکی تھیں تو طہارت کے بعد اللہ کے رسولؐ نے ان کو ان کے بھائی حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرؓ کے ساتھ حدودِ حرم سے باہر تنعیم نامی مقام پر عمرہ کا احرام باندھنے کے لیے بھیجا تھا۔ یہ رخصت مخصوص حالت کی وجہ سے تھی۔ اسی لیے صحابہ کرامؓ نے کبھی بھی اس رخصت کو ہر شخص کے لیے عام نہیں سمجھا، بلکہ خود حضرت عائشہؓ اس کو عام تصور نہیں کرتی تھیں۔ لیکن آج اس رخصت پر اس عموم کے ساتھ عمل ہورہا ہے کہ عقل حیران ہے۔ آپؐ نے حج وعمرہ کی خاطر مکہ آنے والوں کے لیے میقاتیں مقرر کی ہیں اور فرمایا:’’یہ حددو مذکورہ ممالک کے لوگوں کے لیے اور اہل میقات کے علاوہ یہاں سے گزرنے والے ان تمام لوگوں کے لیے بھی ہیں جو حج یا عمرہ کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ نیز جو حضرات میقات اور حدِ حرم کے درمیان رہایش پذیر ہیں وہ حج اور عمرہ کا احرام اپنے گھروں سے باندھیں گے۔ اور جو حضرات حدودِ حرم کے اندر رہتے ہیں وہ حج کا احرام اپنے گھروں سے، اور عمرہ کا احرام حدودِ حرم سے باہر نکل کر باندھیں گے۔
      اب صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ حجاج کی ایک بڑی اکثریت بغیر کسی عذر کے تنعیم (یا حدودِ حرم سے باہر کسی بھی مقام) سے عمرہ کا احرام باندھ کر کثرت سے عمرہ کرتی ہے۔ بغیر کسی عذر کے ایسا کرنا مناسب نہیں۔ البتہ اس امر میں تشدد برتتے ہوئے اس کو مطلق ناجائز قرار دینا بھی غلط ہے۔ ایک معتدل نقطۂ نظر یہ ہے کہ اس سلسلے میں حجاج کے درمیان فرق کیا جائے اور ہر ایک پر یکساں حکم لگانے سے گریز کیا جائے۔ لہٰذا یہ کہا جائے کہ جو حضرات دُور دراز ممالک سے آئے ہیں، اور غالب گمان یہ ہے کہ یہ ان کا پہلا اور آخری سفرِ حرمین ہے، تو ایسے لوگوں کے لیے یہ گنجایش نکالی جاسکتی ہے کہ وہ بلا عذر بھی اس رخصت پر عمل کریں۔ البتہ جو لوگ سعودی عرب اور آس پاس ممالک میں مقیم ہیں اور جن کا کثرت سے مکہ آنا ہوتا ہے وہ بلاعذر اس رخصت پر عمل نہ کریں، بلکہ متعینہ میقات سے ہی احرام باندھیں۔ واللّٰہ اعلم، وھو الموفق للصواب۔
       _______________
       عبیداللہ طاہر فلاحی
      مقالہ نگار اسلامی یونی ورسٹی، مدینہ منورہ میں استاد ہیں۔
      ماشا الله بہت اچھا مضمون لکھا ھے جزاک الله 



      Malala Yousufzai attacked by Takfiri Taliban and ideology of terror


      Pakistan is in an uproar over the targeted shooting of 14-year-old Malala Yousufzai by the Taliban. The Taliban, quick to claim responsibility for the attack, called her advocacy for the education of children, and particularly that of girls, in Swat an “obscenity”, warning the rest of Pakistan to not follow in her footsteps: “let this be a lesson”. With this tragic incident, Pakistan is at a crossroads in the war for its future. The two paths in front of the country are clear. It can tumble down the route of Afghanistan or take the long and uphill route to becoming a relatively peaceful and prosperous moderate Muslim country [Turky, Malysia]. Keep reading >>>>
      Fifty Muslim scholars issue fatwa against Khawarij {Taliban}
      At least 50 Islamic scholars belonging to ‘Sunni Ittehad Council’ on Thursday declared Taliban’s attack on Pakistani children’s rights activist Malala Yousafzai as un-Islamic, DawnNews reported.
      Sunni Ittehad Council represents ‘Barelvi‘ sect of Islam which is  influenced by Sufism and defends the traditional Sufi practices from the criticisms of Islamic movements like the ‘Deobandi’, ‘Wahhabi’ and ‘Ahl al-Hadith’.
      The scholars issued a combined ‘fatwa’ (Islamic ruling) in Lahore which said that the Taliban’s interpretation of Islam was incorrect and was deviant from the actual interpretation of the Shariah.
      The fatwa added that Taliban were misguided and their mindset was driven by ignorance.
      “Islam does not stop women from acquiring education and by attacking Malala the Taliban have crossed the limits of Islam,” the fatwa added.
      “Prophet Muhammad (pbuh) had regarded the sanctity of Muslim’s life and property more important than the sanctity of the ‘Kaaba’ (sacred Muslim place),” adding that the fatwa stated, “Murder of one innocent human being is equivalent to murder of entire humanity.”
      The Islamic ruling added that United States was the enemy of Islam and Pakistan; any kind of cooperation with the US was not in compliance with the Shariah.
      In response to Taliban’s interpretation of killing females for the greater good of the religion, the scholars said that Islam discourages killing of the females. Adding that, they said, “Even apostate women are not allowed to be killed in Islam.”
      The assassination attempt on the life of the young National Peace Award winner has drawn widespread condemnation from the government, political parties and civil society groups, terming it a bid to silent voice for peace and education.
      The banned militant organisation Tehrik-i-Taliban Pakistan (TTP) had issued a statement Wednesday,using Islamic Shariah to defend the attack.
      Pakistani Taliban had said that although they do not believe in attacking women, “whom so ever leads a campaign against Islam and Shariah is ordered to be killed by Shariah.”
      TTP spokesman Ehsanullah Ehsan had argued that it is “not just allowed … but obligatory in Islam” to kill such a person involved “in leading a campaign against Shariah and (who) tries to involve whole community in such campaign, and that personality becomes a symbol of anti-Shariah campaign.”
      Malala had won international recognition for highlighting Taliban atrocities in Swat with a blog for the BBC three years ago, when the Islamist militants burned girls’ schools and terrorised the valley.
      Her struggle resonated with tens of thousands of girls who were being denied an education by the militants across northwest Pakistan, where the government has been fighting the local Taliban since 2007.
      http://dawn.com/2012/10/11/fifty-muslim-scholars-issue-fatwa-against-taliban/
      Visit: http://peaceforum.wix.com/freebooks