Featured Post

SalaamOne NetWork

SalaamOne سلام   is   a nonprofit e-Forum to promote peace among humanity, through understanding and tolerance of religions, cul...

Narinder Moodi the Terrorist


شبنم ہاشمی کی جدوجہد اور نریندر مودi
بارہ سال پہلے بھارتی صوبہ (ریاست) گجرات میں ہندو انتہا پسندوں نے تین ہزار کے قریب مسلمان مرد، عورتیں اور بچے ہلاک کر دیے تھے۔ انسانی حقوق کی بہت سی تنظیموں کے مطابق اُس وقت کے وزیرِ اعلیٰ نریندر مودی نے قتل ِ عام کرنے والے جنونیوں کو نہ صرف کھلی چھٹی دی بلکہ ذاتی طور پر ان کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ اس پاداش میں ان پر مقدمہ بھی چلا لیکن عدالت کے متنازع فیصلے نے اُنہیں بری کردیا۔ آج مودی، جو بی جے پی(بھارتیہ جنتا پارٹی) کے اہم رہنما ہیں، مغربی ممالک کے نزدیک بہت اہمیت اختیار کرچکے ہیں کیونکہ وہ آئندہ قومی انتخابات میں وزارتِ عظمیٰ کے مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ امریکہ نے ان کو پہلے ہی دوستی اور نیک خواہشات کا پیغام بھجوادیا ۔ ممبئی میں امریکی سفارت کار ننسی پاول نے حال ہی میں مودی سے ملاقات کی ۔ امریکہ کے سب سے بااثر اخبار '' دی نیویارک ٹائمز‘‘ نے اپنے اداریے میں امریکہ کے اس رویے کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔۔۔''بھارت کے ایک'' متنازع اورپریشان کن‘‘ سیاست دان کے ساتھ ‘ جو مئی میں ہونے والے انتخابات میں بھارت کا وزیرِ اعظم بن سکتا ہے ‘روابط امریکہ کی عملیت پسندی کی غمازی کرتے ہیں۔‘‘
نریندر مودی کا اتنی اہمیت اختیار کرنا بہت سے بھارتیوں‘ خاص طور پر ملک میںرہنے والے ایک سو اڑتیس ملین مسلمانوں‘ کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ حال ہی میں ایک پاکستانی تجزیہ کار نے لکھا۔۔۔'' مودی کے کٹر ہندو نظریات اور مخالف عقائد رکھنے والوں کو برداشت نہ کرنے کے نتیجے میں بھارت میں مذہبی بنیادوں پر کئی عشروں سے رکے فسادات کا نیا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ ‘‘
غیر ملکی طاقتوں کے پیش ِ نظر اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں، اُنہیں دوسرے ممالک کے شہریوں کے جذبات سے کوئی سروکار نہیںہوتا۔ اس مفاد پرستی کی ایک جھلک برطانیہ کے رویے میں دکھائی دی جب اُس نے گزشتہ سال مودی کا بائیکاٹ ختم کرتے ہوئے دہلی میں اپنے ہائی کمشنر کو اُن سے ملنے کی ہدایت کی۔ اب دنیاکی بڑی طاقتیں بھول گئی ہیں کہ یہ وہی صاحب ہیں جنہیں امریکہ نے گجرات میں ہونے والے قتل ِ عام کی پاداش میں2005 ء میں اپنی سرزمین پر اترنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا۔ اگر چہ مودی پر امریکی ویزہ کی پابندی تاحال موجود ہے لیکن اوباما انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اگر نریندر مودی وزیر ِ اعظم بنے تو پھر معاملہ مختلف ہوگا۔
جس دوران مغربی سفارت کار مودی سے ملاقا ت کرنے کے لیے قطار در قطار چلے آرہے ہیں، مودی ایک تنقیدی آواز کو خاموش کرانے میں ناکام ہیں۔۔۔یہ آواز شبنم ہاشمی ہے جو مقتول سٹیج اداکار صفدر ہاشمی کی بہن ہیں۔ شبنم ہاشمی ANHAD (ایکٹ نائو فار ہارمنی اینڈڈیموکریسی)کی بانی ہیں اور وہ بھارت میں مذہبی منافرت کے خلاف آواز بلند کرنے سے نہیں ڈرتیں۔ تین ماہ پہلے اُنھوںنے نئی دہلی میں اپنے حاضرین کو بتایا۔۔۔''مسخ شدہ تاریخی واقعات اور غلط تصورات کی ترویج سے ایک پوری نسل کو سوچ سمجھ سے محروم کرتے ہوئے انتہا پسند بنا دینا وہ سب سے گھنائونا جرم ہے جو مودی سے گجرات میں سرزد ہوا۔یہ گناہ شاید اُس قتل وغارت سے بھی زیادہ سنگین تھا جو اس کٹر ذہنیت کے نتیجے میں دیکھنے میں آئی۔ اب بھارت کی داخلی سیاست میں نفرت کے جذبات متحرک ہو چکے ہیں۔‘‘
گجرات کے فسادات کے چھ ماہ بعد، اگست 2002ء میں میری ملاقات شبنم ہاشمی سے اُس وقت ہوئی جب وہ امریکہ آئیں تاکہ امریکیوںکو مودی کا اصل چہرہ دکھا سکیں۔ اُنھوںنے مجھے بتایا۔۔۔''میں نے ذاتی طور پر اجتماعی آبروریزی کے ساٹھ کیسز کی تفصیل ریکارڈ کی۔ متاثرہ خواتین سے کیسز کی انتہائی گھنائونی اور اذیت ناک تفصیل سننے کو ملی کہ کس طرح جنونی ہجوم ان کا تعاقب کررہا تھا اوراُن کو شہر کی سڑکوں پر برہنہ بھاگنے پر مجبور کیا گیا۔ ‘‘ بہت سی خواتین کو عصمت دری کے بعد زندہ جلادیاگیا۔ شبنم نے ایک عورت کوثر بانو کی تصویر دکھائی جو آٹھ ماہ کی حاملہ تھی اور اُسے اس کے شکم میں بچے سمیت زندہ جلا دیا گیا۔ بہت سی نوجوان لڑکیوں کے نازک اعضا کو تیز دھار والے آلوں سے کاٹ دیا گیا۔
شبنم ہاشمی کے بیان کردہ یہ لرزہ خیز واقعات آر ایس ایس (Rashtriya Swayamsewak Sangh) اور دیگر جنونی ہندو تنظیموں، جیسا کہ شیو سینا، کے کارکنوں کی طرف سے مسلمانوں کی نسل کُشی کرنے کی تصدیق کرتے ہیں۔ ان واقعات کو سن کر امریکی بھی سکتے میں آگئے تھے۔ '' دی نیویارک ٹائمز ‘‘ نے گجرات فسادات پر ایک رنگین ایڈیشن شائع کرتے ہوئے تین ہزار مسلمانوں کے قتل، چھ سو سے زائد خواتین کی بے حرمتی ، تشدد اور زندہ جلانے کے واقعات اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت گجرات کے مالدار مسلمان تاجروں کے کاروبار کو تباہ کرنے کی تفصیل سے امریکیوں کو آگاہ کیا۔ شبنم ہاشمی کے مطابق اُن فسادات میں تین سو ساٹھ مساجد اور درگاہوں کو نقصان پہنچایا گیا۔افسوس ناک بات یہ کہ آر ایس ایس کے خواتین ونگ نے بھی ان فسادات میں عملی حصہ لیا۔ شبنم کہتی ہیں ۔۔۔''بہت سے ایسے واقعات دیکھنے کو ملے کہ درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والی عورتیں مہنگی گاڑیوں میں بیٹھ کر آئیں اور اُنھوںنے دکانوں اور مارکیٹوں کو لوٹااور عورتوں کو، جن کی مردوں کے سامنے عصمت دری کی گئی تھی، آگ لگا کر جلا دیا۔‘‘
شبنم نے خون منجمد کر دینے والی اس تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے امریکیوںکو بتایا کہ یہ سب کچھ کوئی ہنگامی اشتعال نہیں بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق تھا۔ آرایس ایس نے ہندو جنونیوںکو باور کرایا تھا کہ گودھرا ریلوے سٹیشن پر ہندو یاتریوں کی ٹرین کی بوگی S-6 پر مسلمان انتہا پسندوں نے حملہ کرکے باون ہندو سیوک ہلاک کردیے تھے۔ بعد میںہونے والی تحقیقات کے مطابق ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ 19 اگست کو بھارت کی وزارت ِ ریلوے نے آر ایس ایس کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ جن باون سیوک کے ہلاک ہونے کا شور مچایا جارہاہے، اُن میں بیالیس زندہ پائے گئے ہیں۔ اس کے بعد اُس بوگی S-6 کی تصاویر بھی شائع کی گئیں جو بالکل ٹھیک حالت میںتھی۔ ریلوے حکام نے آرایس ایس کے رہنمائوں سے پوچھا کہ اگر بقول ان کے بوگی کو جلایا گیا تھا اور ان کے باون یاتری ہلاک ہوگئے تھے، تو کیا اس خاکستر بوگی کی یہ حالت ہوگی جو تصاویر میں دکھائی گئی تھی۔تصاویر کے مطابق اس بوگی کا اندرونی حصہ، سیٹیں اور پنکھے صحیح سلامت تھے بہرحال اس واقعے کوجواز بنا کر گجرات میں مسلمانوں کا قتل ِ عام کیا گیا۔
شبنم ہاشمی 'اے ایم سی‘‘(امریکن مسلم کونسل) کی دعوت پر آئی تھیں او ر اُس دورے کے دوران اُنھوںنے پچیس مقامات پر خطاب کیا۔ امریکی خواتین نے ان کی باتیں پوری توجہ سے سنیں اور مطالبہ کیا کہ کسی غیر جانبدار ٹربیونل کو گجرات فسادات کا جائزہ لینا چاہیے۔ شبنم نے بتایا کہ ان کے والد آزادی کے مجاہد تھے اور ان کو انگریز سرکار نے چار مرتبہ جیل بھیجا۔ اُنھوںنے اُس افسوس ناک واقعے کابھی ذکر کیا جب 1989ء میں ہندو انتہا پسندوںنے سٹیج پر حملہ کرکے ان کے بھائی، صفدر ہاشمی کو اُس وقت ہلاک کردیا جب وہ پرفارم کررہے تھے۔ شبنم کا کہنا تھا کہ ہندو مسلم نفرت کی جڑیں کئی صدیوں میں گڑی ہوئی ہیں لیکن وہ امید رکھتی ہیں کہ آئندہ ایسے واقعات پیش نہیں آئیںگے‘ تاہم اب دیکھنا ہے کہ اگر مئی میں ہونے والے انتخابات میں نریندرمودی جیت جاتے ہیں تو ہندوستان میں پلنے والی مذہبی منافرت کیا رنگ دکھائے گی۔
Anjum Niaz dunya.com.pk